Saturday, 17 December 2016

☪ *بحیثیت مسلمان شامی مسلمانوں کا درد ہمارے دل میں جاگزیں ہونا چاہیے*

♦ *کسے خبر تھی کہ لیکر چراغِ مصطفوی*
♦ *جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی*

شام میں اب تک لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار جا چکا ہے اور اس قتل عام سے کسی بھی طور پر متاثرہ خاندانوں اور افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے. سیکڑوں افراد ملک اور بیرون ملک ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے. بے شمار گھروں کومنہدم کر کے اور اجاڑ کر ویرانیوں میں دبدیل کر دیا گیا.  اخبارات کی ایک رپورٹ کے مطابق شام میں ہر ہفتے اوسطاً ایک ہزارسے زائد افراد لقمہ اجل بنتے ہیں، چنانچہ گزشتہ پانچ سالوں اور چند ماہ اور ان چند دنوں میں تقریباً دو لاکھ 60ہزار افراد موت کے گھاٹ اُتارے جا چکے ہیں.

قارئین کرام! شامی مسلمانوں پر اتنے مظالم ہونے کے باوجود بهی آج اسلامی ممالک کی طرف سے شامی مسلمانوں کے لیے اخلاقی تعاون کا فقدان نظر آتا ہے. چند ایک ممالک کو چھوڑ کر شاید پورے عالم اسلام کے لیے شامی مسلمانوں کے اس مسئلے میں کوئی دلچسپی کا عنصر موجود نہیں. اس شدید تعاونی بحران کے باوجود شام کے مظلوم مسلمانوں کی جرات و شجاعت کو سلام کہیے کہ وہ نہ صرف ایک ظالم کے آگے سر جھکانے کو تیار نہیں ہوئے بلکہ وہ مایوسی کے نام تک سے ناواقف ہیں.

خیر یہ بات ٹھیک ہے کہ امریکا اور اسرائیل کسی بھی اسلامی ملک کو طاقتور نہیں دیکھنا چاہتے، یہی وجہ ہے وہ ان ممالک میں فرقہ وارانہ خانہ جنگیوں میں اہم کردار ادا کرتے رہتے ہیں، لیکن ہم مسلمانوں کو کیا ہو گیا ہے.
شام میں قیامت کی ہولناکیاں جاری ہیں، مظلوم مسلمان آسمان کی جانب نظریں اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر مسلم ممالک کی بزدلی کی شکایت رب العزت سے کر رہے ہیں کہ کسی بھی مسلم ملک اور نام نہاد انسان دوست ملک کو بچوں کے چیتھڑے اڑتے نظر نہیں آتے، عراق کی مدد کرنے والے ایران، داعش کے خود ساختہ خلیفہ، سعودیہ، جو مصر میں فوجی حکومت کے لیے اربوں ڈالر کی امداد دے سکتا ہے لیکن شامی صدر کے خلاف سب خاموش ہیں.
شام کے مظلوم بے یار و مددگار مسلمان اپنی جان و عزت کی حفاظت کے لیے دنیا بھر سے بھیک مانگ رہے ہیں، کہاں ہیں وہ جہادی تنظیمیں، جو مسلم ممالک میں مساجد، مزارات، بے قصور مسلمانوں کے قتل عام پر جہاد کے فتوی جاری کرتی ہے لیکن انھی شام کے لاوارث مسلمان نظر نہیں آ رہے.
بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ غیر مسلم ممالک امریکا، برطانیہ، اسرائیل کی سازشوں کو سمجھنے کے باوجود ہم دانستہ اور غیر دانستہ ان کے اہلکار بنتے جا رہے ہیں.
مسلم حکمرانوں کے پاس مظلوم شامی مسلمانوں کی مدد کے بے شمار طریقے موجود ہیں حکمران بیک آواز ہو کر عالمی دباؤ کے ذریعے اس اندھے ظلم کو رکوائیں۔ اپنا سیاسی وزن انہیں مظلوموں کے پلڑے میں ڈالیں۔ ظلم کا نشانہ بننے والے وہاں کے شہریوں کو مالی تعاون فراہم کریں.
ان کو اپنے ہاں پناہ دے کر اپنا مذہبی فریضہ ادا کریں. میڈیا ذرائع حق ، سچ اور انصاف کی آواز بلند کریں. یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ ذرائع ابلاغ اس وقت کا سب سے بڑا جہاد اور دفاع کا ذریعہ ہیں.اگر وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں، صرف سچ اور حق کو نکھار کر اقوام عالم کے سامنے رکھ دیں، ان کا فریضہ ادا ہو جائے گا.
 ان شاء اللہ آج نہیں تو کل جلد یا بدیر مظلوموں کو انصاف مل کر رہے گا.
بحیثیت مسلمان شامی مسلمانوں کا درد ہمارے دل میں جاگزیں ہونا چاہیے.اس بات سے تو کوئی مسلمان بھی خالی نہ رہے کہ اپنے تمام مظلوم مسلمان بھائیوں، بالخصوص شامیوں کی اس شام غم سے نجات کے لیے اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلا کر مسلسل دعا کرتا رہے.
اللہ رب العالمین شامی مسلمانوں کو ظالموں کے ظلم سے محفوظ فرمائے آمین
اللهم احفظ بلاد الشام و بلاد المسلمين اللهم احفظهم بحفظك اللهم امين يارب العالمين بالمصطفي الكريم صلي الله عليه وسلم.

ا======================|

✍🏼 از قلم*محمد گلفام رضا برکاتی سعدی*
خادم تدریس و افتاء
دارالعلوم صدر الأفاضل
اسلام نگر کرولا مرادآباد یوپی

http://m.facebook.com/Alahazrat-Institute-of-Moral-Science-1572595282957054/

Sunday, 13 November 2016

*جمعیت علما کا U ٹرن*


مدتوں سے تقویت الایمان نامی کتاب کے عقائد کی دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں مسلمانوں میں منافرت اور مسلکی اختلافات کی جو آگ بھڑکی تھی، اس کے سنگین نتائج دنیا نے دیکھے!
کہیں مسلمانوں کو قتل کیا گیا!
کہیں صوفیوں کا مزار بم دھماکے سے اڑا دیا گیا!
کہیں میلادالنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی محفلوں پر حملہ کیا گیا!
صوفیائے کرام و اولیائے کرام کی بارگاھیں امن و سلامتی کا گہوارە رہی ھیں
لیکن تقویت الایمانی نظریات کے حاملین نے مزارات کو نشانہ بنایا!
شرک و بدعت کے فتوے جاری کیے!
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی چشتی کی کتاب "فیصلہ ھفت مسئلہ" جو صوفیا کے مسلک کی تائید میں تھی کو وہابیت و جمعیت علما کے قائدین (مولوی رشید احمد گنگوھی دیوبندی) نے جلوا دیا!
ان کے افکار نے درجنوں شدت پسند تنظیموں کی ذہن سازی کی!
طالبان، لشکر طیبہ، القاعدە، جیش محمد، سپاە صحابہ، لشکر جھنگوی جیسے عناصر اسی فکر کے مبلغ ھیں جس نے ساری دنیا کے مسلمانوں پر شرک و بدعت کے فتوے عائد کیے
اور آج ان کی دھشت گردی نے انسانیت کو شرمسار کر کے رکھ دیا
تو ان کی قیادت نے U ٹرن لیا
اب وە اپنے فرقے کی آبرو بچانے اور دھشت گردی کے لیبل کو دور کرنے کے لیے اجمیر نگری کی جاروب کشی کر رہے ھیں
در خواجۂ خواجگان رضی اللہ تعالٰی عنہ پر ناک رگڑ رہے ھیں
لیکن! شاید اس عمل سے بجائے مفاد کے حصول کے منافقت کا داغ اور نمایاں ھو جائے-
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ داغ دل مزید اجاگر ھوگا اور دو چہرے والے بے نقاب ھوتے جائیں گے!


*بقلم :* غلام مصطفٰی رضوی
نوری مشن/ رضا لائبریری مالیگاؤں

Saturday, 5 November 2016

*بیت المقدس کی تمام مساجد میں اذان پرپابندی کی صہیونی سازش بے نقاب*


مقبوضہ بیت المقدس ۔۔۔ مرکز اطلاعات فلسطین +-
اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ صہیونی حکومت کی ہدایت کی روشنی میں بیت المقدس میں قائم اسرائیلی بلدیہ نے شہر کی تمام مساجد میں اذان پرپابندی کی نئی سازش تیار کی ہے۔ تاہم اس سازش کو فی الحال خفیہ رکھا گیا ہے۔

اسرائیل کے مقتدر حلقوں کے مقرب نیوز ویب پورٹل ’’کول اسرائیل‘‘ نے اپنی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیلی بلدیہ کی طرف سے مسجد اقصیٰ سمیت بیت المقدس کی تمام مساجد میں اذان پرجزوی یا مستقل پابندی کے لیے تجاویز حکومت کے سامنے پیش کی تھیں۔ حکومت نے ان تجاویز سے اتفاق کیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی بلدیہ کے میئر نیر برکات نے متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی پولیس کے تعاون سے مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی تمام مساجد میں اذان پرپابندی کے حوالے سے اسکیم تیار کریں۔

مسٹر برکات کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے القدس کی تمام مساجد میں اذانوں کے نتیجے میں یہودی آبادکاروں کو لاحق ہونے والی پریشانی کو جواز بنا کر لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے پرپابندی عاید کی جاسکتی ہے۔

صہیونی بلدیہ کے سربراہ نے اسرائیلی پولیس چیف کو ایک مکتوب بھی ارسال کیا ہے جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ اذان پرپابندی عایدکیے جانے کی تجاویز پر عمل درآمد کے لیے پلان تیار کریں۔

خیال رہے کہ صہیونی حکومت کی طرف سے بیت المقدس میں اذان پرپابندی کی سازش ایک ایسے وقت میں تیار کی گئی ہے جب قابض صہیونی ریاست قبلہ اول اور القدس کے تاریخی اسٹیٹس کو تبدیل کرنے کے لیے ہمہ جہت سازشیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان میں بیت المقدس میں یہودی آباد کاری، شہر سے فلسطینی باشندوں کی جبری بے دخلی اور مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کی یلغار کی سہولت جیسے گھناؤنے اقدامات شامل ہیں۔

درایں اثناء قبلہ اول کے امام وخطیب الشیخ عکرمہ صبری نے اسرائیلی انتظامیہ کی طرف سے بیت المقدس کی مساجد میں اذان پرپابندی کی سازش پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جنہیں مساجد میں بلند ہونے والی اذان سے تکلیف پہنچتی ہے وہ بیت المقدس سے نکل جائیں۔ بیت المقدس مسلمانوں کا تاریخی اور مقدس شہر ہےجہاں عالم اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام قبلہ اول موجود ہے۔ اس لیے یہاں کی تمام مساجد میں پانچوں نمازوں کے لیے اذان کی آواز ضرور بلند ہوگی۔


Thursday, 3 November 2016

_*اصلاح فکر واعتقاد کی عالمگیر تحریک سنّی دعوت اسلامی کے امیر*_
*مولانا محمد شاکر علی نوری اکابراور ارباب دانش کی نظر میں*


داعی کبیرحضرت علامہ محمد شاکر علی نوری صاحب (امیر سنّی دعوت اسلامی )کی شخصیت خدمت دین کی بدولت پوری دنیا میں انفرادی حیثیت کی حامل ہے۔۵؍ستمبر۱۹۹۲ء کوممبئی عظمیٰ کی سرزمین پرخداورسول اکرمﷺ کے کرم وعنایت پر بھروسہ کرتے ہوئے’’ تحریک سنّی دعوت اسلامی‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔حضرت موصوف کی قائدانہ صلاحیتوں نے اس تحریک کو عالمی تحریک بنادیا۔یہ تحریک ممبئی سے اٹھی اوردیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان اور بیرون ممالک میں اس کا غلغلہ بلند ہونے لگا۔آپ جہان بھر میں اپنی خطابت کے ذریعے اصلاح امت کا فریضہ بخوبی انجام دے رہے ہیں،ساتھ ہی تصنیف وتالیف کے ذریعے بھی رہ نمائی فرمارہے ہیں۔آپ نے ملک وبیرون ملک کے طول وعرض میں متعدددارالعلوم ا وراسلامی انگلش میڈیم اسکولوں کا قیام فرمایاہے۔ہر پانچ سالوں پر دی رائیل اسلامک اسٹریٹیجک اسٹڈی سینٹر(جارڈن)پوری دنیامیں اثرورسوخ رکھنے والے پانچ سو مسلم افراد پر مشتمل سروے رپورٹ پیش کررہاہے۔۲۰۰۹ء اور ۱۵۔۲۰۱۴ء کی سروے رپورٹ میں مولاناموصوف کانام بھی فہرست میںموجودہے۔آپ کو خانۂ کعبہ میںنماز اداکرنے کا شرف بھی حاصل ہے۔مولانا شاکر علی نوری نے اپنے اصلاحی کاموں کی بدولت دنیا بھر میں شہرت پائی، آپ مخلص داعی، کامیاب مصلح اور اہل سنت کے عظیم عالم دین ہیں۔آپ کی شخصیت کے گوناگوں اور آفاقی پہلوئوں کی مکمل عکاسی کرناراقم کی بساط سے باہر ہے اس لیے حضرت موصوف کی سیرت وشخصیت کو اہلسنّت کے اکابر و ممتازعلمائے کرام کے تاثرات و اقوال کی روشنی میں پیش کیاجاتا ہے۔

*حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی*
17؍مارچ 1960ء بمقام جوناگڑھ،کاٹھیاواڑ،صوبۂ گجرات میں عالی جناب عبدالکریم میمن نوری کے یہاںمولاناشاکر علی نوری کی ولادت ہوئی۔آپ کے یہاں اکابر اہل سنت کی تشریف آوری ہوتی رہتی تھی جس سے ہندوستان کے مشہور علمااور مشائخ سے آپ کے گھرانے کے روابط کا پتہ چلتاہے۔’’مولانا موصوف نے ایس ایس سی (میٹرک)تک تعلیم جونا گڑھ میں حاصل کی ،مدرسہ عرفان العلوم اپلیٹہ اور دارالعلوم مسکینیہ دھوراجی میں حفظ قرآن کیا۔ وہیں تجوید وقراء ت کا کورس بھی مکمل کیا،اس کے بعد سنی دارالعلوم محمدیہ، متصل مینارہ مسجد ممبئی میں داخل ہوئے اور جماعت خامسہ تک درس نظامی کی تعلیم حاصل کی پھر تبلیغ کے میدان میں آگئے، مولانا کے چند *اساتذۂ کرام* یہ ہیں۔

حضرت مولانا غلام غوث علوی ہاشمی، حضرت مولانا نور الحق (سابق استاذ دارالعلوم محمدیہ)، مولانا محمد حنیف خان اعظمی مبارکپوری، مولانا مجیب الرحمن صاحب قادری، حضرت مولانا ظہیر الدین خان صاحب صدر المدرسین دارالعلوم محمدیہ، حضرت مولانا توکل حسین حشمتی،حضرت مولانا جان محمد برکاتی اساتذۂ دارالعلوم محمدیہ وغیرہ سے تعلیم حاصل کی اور اشرف العلما حضرت سید حامد اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ سے وقتاً فوقتاً استفادہ کرتے رہے۔

مولاناشاکر علی نوری صاحب (امیر سنّی دعوت اسلامی )کا سوانحی خاکہ *محقق مسائل جدیدہ حضرت مفتی محمد نظام الدین صاحب رضوی (صدر شعبۂ افتا الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور، اعظم گڈھ، یوپی)*کے قلم سے پیش خدمت ہے :
’’مولانا موصوف کو سند الفقہائ،حبر الامہ، حضرت سیدی مفتیٔ اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان قادری نوری علیہ الرحمۃ والرضوان سے شرف بیعت اور تاج الشریعہ حضرت علامہ اختر رضا خاں ازہری دام ظلہٗ اور سجادہ نشین آستانۂ عالیہ قادریہ بغداد سے شرف خلافت حاصل ہے، یہ حسن اتفاق کہ مولانا بھی نوری ہیں اور آپ کی والدہ ماجدہ بھی نوری ہیں، اور آپ کے والد مرحوم بھی نوری تھے اور یہ بندہ گنہگار راقم الحروف بھی اسی سلسلۂ نوریہ سے منسلک ہے اور آج تو ایک جہان اسی نور عرفان سے روشن ومنور ہے۔
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
سب اسی زلف کے اسیر ہوئے

لیکن مولانا نے نوری پیر سے جو اکتساب نور کیا وہ قابل رشک ہے کیونکہ مرشد بر حق کے فیضان نے انہیں سنت کا عامل بھی بنا دیا اور شریعت کا مبلغ بھی ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔۔عمامہ شریف برابر زیب سر رکھتے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔ لوگوں کو دین کے احکام سے روشناس کرنے اور سنت کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے تقریباََ سترہ سال پہلے ’’سنی دعوت اسلامی‘‘ کے نام سے ایک تحریک چلائی جو بہت مقبول ہوئی، ہندوستان، برطانیہ، کناڈا، امریکہ، افریقہ وغیرہ میں اس کے پرچم تلے بہت اچھا کام ہو رہا ہے۔ ہندوستان، امریکہ اور برطانیہ میں عظیم الشان پیمانے پر سالانہ اجتماعات ہوتے ہیں۔ وادیٔ نور آزاد میدان ممبئی میں تقریباََ پانچ لاکھ فرزندانِ توحید جمع ہوتے ہیں۔ ان اجتماعات میں راقم الحروف نے بھی بارہا شرکت کی ہے، ان میں اصلاح عقائد اور اصلاح اعمال کے مختلف موضوعات پر علما کے نورانی بیانات ہوتے ہیں، خود مولانا کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی روشنی میں بہت عمدہ اور اثر انگیز خطاب فرماتے ہیں، اجتماعات کا ایک اجلاس فقہی احکام ومسائل کے لئے خاص ہوتا ہے ،جس میں لوگوں کے ذریعہ پوچھے گئے سوالات کے جوابات دئیے جاتے ہیں۔ وہابیوں،دیوبندیوں کے عقائد اور احکام کے تعلق سے بھی سوالات ہوتے ہیں جن کے تفصیلی جوابات کتاب وسنت کی روشنی میں دئیے جاتے ہیں۔اسٹیج کافی وسیع وعریض ہوتا ہے جو علما، فقہا، ائمہ، قرا، حفاظ اور شعرا سے بھرا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ایسا شخص جس کی کل تعلیم درجۂ خامسہ تک ہو اور وہ ایسے کارہائے نمایاں انجام دے،قابل رشک وقابل تقلیدہے، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ مرشد بر حق حضور سیدی ومولائی وملاذی مفتیٔ اعظم ہند مولانا شاہ مصطفی رضا قادری نوری بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کا نوری فیضان ہے جو مولانا موصوف پر برس رہا ہے۔‘‘(برکات شریعت ،مجلد،ص۳۸)

*نبیرۂ رئیس القلم مولاناخوشتر نورانی*
نبیرۂ رئیس القلم مولاناخوشتر نورانی صاحب (ایڈیٹر جام نور،دہلی)نے اپنے میگزین کے لیے امیر سنّی دعوت اسلامی کا انٹرویولیا۔ ادارتی نوٹ میں امیر سنّی دعوت اسلامی کے دعوت وعزائم و تصنیفی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے مولاناخوشتر نورانی صاحب رقم طراز ہیں:
’’مولانا تعلیم دین کو عام کرنے کے لیے ایک سو گیارہ مدارس قائم کرنے کا عزم رکھتے ہیں جب کہ اب تک ایسے ۲۵؍مدارس اسکول قائم ہوچکے ہیں۔مولاناکے منصوبوں میںانگلش میڈیم اسکول اور ہاسپٹل کا قیام بھی شامل ہے۔مولاناموصوف کا وقت تبلیغی اسفار،تربیت،مبلغین،تحریک کی بہتر تنظیم اور اپنے مدارس کی نگرانی اور تجارت جیسے امور میں صرف ہوتاہے۔ہر سال حج وعمرہ کی سعادت سے سرفراز ہوتے ہیں۔موصوف کوخانۂ کعبہ مقدسہ کے اندرون میں عبادت کرنے کا اعزاز بھی تین سال قبل حاصل ہوا۔ہر تین سال پر مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا ایک سہ روزہ فقہی سمیناراورآخر میں اجلاس عام بھی منعقد کراتے ہیں۔تصنیف وتالیف سے بھی رشتہ ہے۔ماہ رمضان کیسے گزاریں؟،گلدستۂ سیرت النبیﷺ،مژدۂ بخشش (نعتوں کا مجموعہ)،عظمت ماہ محرم اور امام حسین،قربانی کیا ہے ؟،امام احمد رضااور اہتمام نماز،بے نمازی کا انجام،مسلم کے چھ حقوق، حیات خواجہ غریب نواز،خواتین کا عشق رسول اور خواتین کے واقعات ‘‘وغیرہ آپ کے اصلاحی قلم کی شاہکار ہیں۔مولانااپنے خون جگر سے اپنی اصلاحی تحریک ’’سنّی دعوت اسلامی ‘‘کی سینچائی میں مصروف ہیں۔‘‘(جام نور،ص۴۴،نومبر۲۰۰۹ئ)

یہ تو رہاسوانحی خاکہ اور دعوتی عزائم کی چندجھلکیاں۔اب اہل سنت کی بڑی خانقاہوں کے سجادگان اور ممتاز علمائے کرام کے تاثرات اورتقریظات کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔

*حضرت سیدشاہ آل رسول نظمی مارہروی علیہ الرحمہ*
شہزادۂ حضورسیدالعلماء حسان الہندحضرت سید شاہ آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی علیہ الرحمہ نے اپنا نعتیہ مجموعہ ’’نوازش مصطفی‘‘تحریری دستخط کے ساتھ جب امیر سنّی دعوت اسلامی کو بہ طور تحفہ عنایت فرمایاتو اس میں آپ نے اپنے دستخط کے ساتھ یہ تاریخی جملہ قلم بند فرمایاتھا:
’’اس مستانے کی نذر جسے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے مقدس کام کے لیے چناہے جو اس کے حبیب ﷺکی سنت ہے،یعنی تبلیغ دین متین۔میری مراد علامہ شاکر نوری برکاتی سے ہے جنہیں میں اپنے بھائی کی طرح چاہتاہوں۔‘‘(اہل سنت کی آواز،۲۰۱۴ء ،ص۴۳۴)

اس جملے پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی توفیق احسن برکاتی لکھتے ہیں:
’’غور کیاجائے تو اس ایک جملے میں جہاں اعتماد،چاہت،اصاغر نوازی،اپنائیت اور والہانہ سرپرستی کی رنگارنگی موجود ہے،وہیں اس میں تبلیغ دین اور اشاعت مسلک حق کی مقبول بارگاہ خدمات اور دینی وعلمی اثرات کی دانش ورانہ پیشین گوئی بھی عکس ریز ہے۔(مرجع سابق)

حضرت سید نظمی میاں علیہ الرحمہ نے امیر سنّی دعوت اسلامی کو ۱۷؍صفرالمظفر ۱۴۳۳ھ کو خلافت سے نوازاتھااور خلافت عطا کرتے وقت فرمایاتھاکہ :
’’شاکر بھائی!خوب لگن سے دین کاکام کرو،ذراسامغموم اور رنجیدہ نہ ہونا،یہ فقیر برکاتی اور خاندان برکاتیت آپ کے ساتھ ہیں،میں آپ کو وہ خلافت دیتاہوںجو حضرت نوری میاں علیہ الرحمہ نے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کو دی تھی،یعنی سلسلہ جدیدہ اور قدیمہ دونوں کی خلافت دیتاہوں۔(مرجع سابق)

*امین ملت پروفیسر سیدمحمد امین میاں برکاتی صاحب*
مولاناشاکر علی نوری صاحب نے ابتدا ہی سے زمینی اورانفرادی محنت پرخصوصی توجہ مرکوز کیں جس کے سبب لاکھوں گم گشتگانِ راہ نے ہدایت پائی۔اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے امین ملت پروفیسر سیدمحمد امین میاں برکاتی صاحب ( سجادہ نشین آستانۂ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ ، وپروفیسر شعبہ اُردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)امیر سنّی دعوت اسلامی کی کتاب ’’برکات شریعت ‘‘کی تقریظ میںرقم طراز ہیں:
’’میں دِلی گہرائیوں سے مولانا شاکر رضوی صاحب اور ان کی تحریک ’’سنی دعوت اسلامی ‘‘کے لیے دعاکرتا ہوں،نہ جانے کتنے گمراہ اس تحریک میںشامل ہوکر صراط مستقیم پر گامزن ہوگئے۔اللہ تعالیٰ مولانا کے علم وفضل ،جمال وکمال اور تصلب دینی میں دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے ۔آمین بجاہ الحبیب الامین وعلیٰ آلہٖ وصحبہٖ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین(برکات شریعت ،حصہ اول ،ص۳۴)

*حضور شرف ملت حضرت سید محمد اشرف میاں صاحب برکاتی مارہروی*
اہل سنّت وجماعت کے مرکز روحانیت مارہرہ مطہرہ کے چشم وچراغ مشہور فکشن رائٹر حضورشرف ملت حضرت علامہ سیدمحمد اشرف میاں صاحب برکاتی مارہروی(چیف انکم ٹیکس کمشنر آف انڈیا، کولکاتا) دنیائے ادب میں اپنے مخصوص اسلوب اور طرز تحریرکی بنیاد پر مقبول ہیں۔ امیر سنّی دعوت اسلامی کے نعتیہ مجموعۂ کلام ’’مژدۂ بخشش ‘‘پر حضور شرف ملت اپنے تاثرات ان الفاظ میںتحریر فرماتے ہیں:
’’امیر سُنی دعوت اسلامی مولانا حافظ و قاری محمد شاکر نوری رضوی کی شخصیت اور تبلیغی کارنامے تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ لیکن آج ان کے ادبی اظہار سے میرا پہلا باضابطہ سابقہ پڑا ہے اور اس کا ردِ عمل بہت دل خوش کن اور روح کی گہرائیوں کو تر کرنے والا ہے۔

نعت نبیﷺ بڑا ہی سخت میدان ہے۔ اس راہ میں قلم کی ایک معمولی لغزش بارگاہِ رسالت مآب ﷺمیں عمر بھر کیلئے معتوب بنا سکتی ہے۔ اس مجموعے میں شامل نعتوں میں بفضلہ تعالیٰ نعتیہ شاعری کے مضامین سے متعلق وہ دونوں بڑی مشہور لغزشیں تلاش کرنے پر بھی نہیں ملیں گی، یعنی شرک کا شائبہ اور اہانتِ رسولﷺ پر سمجھوتہ۔

شاعری، شاعر کے دل کی ترجمانی کرتی ہے، جناب شاکر نوری کو اپنے پیرانِ سلسلہ اور تحریک سُنی دعوت اسلامی سے والہانہ عقیدت و محبت ہے، ان دونوں جذبوں کا اظہار بخوبی ہوا۔ نعت کے میدان میں مولانا محمد شاکر علی نوری کی سعیِ مشکور کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیے۔ لفظوں کا تناسب، معنی کی وسعت، جذبوں کی فراوانی، مضامین کی بلندی، عاشق کی نیازمندی، طالب کا عجز اور اشعار میں جاری و ساری ایک خاص قسم کی محتاط وارفتگی کے جلوؤں سے آنکھیں خوب خوب ٹھنڈی ہوں گی۔ (مژدۂ بخشش نعتوں کا مجموعہ،ص۵)

برادر گرامی ڈاکٹر محمد حسین مشاہد ؔ رضوی نے مولانا محمد شاکر نوری کی شاعری پر ۲۰۰۶ء میں ’’مولانا محمد شاکر نوری ـ: دبستان بریلی کے خوش فکر شاعر ‘‘کے عنوان سے ایک مضمون قلم بند کیا تھا جو سہ ماہی سنی دعوت اسلامی ، ممبئی ، شمارہ جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا تھا ۔ چار صفحے کا یہ مضمون بڑی عمدگی اور محنت سے لکھا گیا تھا ، اس مضمون کے اخیر میں مشاہدؔ رضوی لکھتے ہیں :
’’ حضرت مولانا موصوف کی نعتیہ شاعری میں دبستان بریلی کے معاصر شعراے کرام کی طرح سوز وگداز ، کیف وجذب اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی تڑپ اور کسک پائی جاتی ہے ، آپ کی شاعری کے مضامین میں آورد نہیں بلکہ آمد آمد ہے ۔ طرز ادا کا بانکپن ، اظہار مدعا میں عاجزانہ پن ، آسان اور سہل الفاظ میں بات کو پیش کرنا ، افراط وتفریط سے مبرا ، محتاط وارفتگی کے ساتھ شاعرانہ پیکر تراشی کا چابک دستی سے استعمال اور جان ایمان مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت والفت کا اظہار واشتہار آپ کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔ ‘‘(سہ ماہی سنی دعوت اسلامی ، ممبئی ، شمارہ جنوری تا مارچ ۲۰۰۶ء ص: ۴۳)

*علامہ عبدالمنان رضامنانی میاں صاحب*
امیر سنّی دعوت اسلامی نے ملک و بیرون ممالک میں چمنستان سنیت کی جو باغ وبہار لگائی ہے،ان خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے سنّی دعوت اسلامی کے زیر اہتمام جاری علاقۂ خاندیش کی معیاری درس گاہ ’’دارالعلوم چشتیہ‘‘کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت علامہ عبدالمنان رضامنانی میاں صاحب نے تحسین آفرین کلمات ارشاد فرمائے،ملاحظہ کریں:
’’پہلی مرتبہ مہاراشٹر کی سرزمین پر ایسا ہواکہ امیر اہلسنّت سنّی دعوت اسلامی کی جان، مسلک امام احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کو پھیلانے والا انسان، نازش سنّیت، حضرت مولاناحافظ قاری محمدشاکر علی نوری۔میں سمجھتاہوں کہ حضور مفتی اعظم ہند کی روح بھی بہت خوش ہوگئی ہوگی۔اللہ کا بڑافضل واحسان ہے کہ ان کے کام کو نندوربار ہی میں نہیں دیکھا،منانی نے ان کے کام کو انگلینڈکی زمین پر بھی دیکھاہے اور وہاں ان کے لندن کے پروگرام،لیسٹر کے پروگرام،لسبن کے پروگرام،مانچسٹرکے پروگرام،پرسٹن کے پروگرام ۔علاقۂ عالم اسلامی میں منانی گیااور ایک دو ملک نہیں،سولہ ملک میں۔الحمدللہ!سولہ ملک میں جانا ہوا،کہیں ہمیں بستر اٹھانانہیں پڑا،ہر جگہ بستر لگاہوامل گیا۔وہ بستر اٹھاتے پھرتے ہیں جن کا کوئی نہیں،ہماراتو سب کچھ ہے ؎
کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہئے
دینے والا ہے سچاہمارا نبی

اللہ کا بڑافضل واحسان ہے۔منّانی تو بعد میں گیا،پرسٹن،لسبن،بولٹن۔اعلیٰ حضرت نے نمائندہ بناکر کے امیر اہلسنّت شاکر علی نوری کو پہلے بھیج دیا۔بعد میں ہم گئے پہلے یہ گئے،سب بستر لگے لگائے مل گئے۔‘‘(۱۲؍اگست بروز منگل ۲۰۰۸ء ،نندوربارمہاراشٹر)

خانوادۂ اعلیٰ حضرت کے ایک ممتاز فرد کا یہ گراں قدر تاثر خصوصاً یہ جملے:’’منّانی تو بعد میں گیا،پرسٹن،لسبن،بولٹن۔اعلیٰ حضرت نے نمائندہ بناکر کے امیر اہلسنّت شاکر علی نوری کو پہلے بھیج دیا۔ ‘‘ مولانا شاکر علی نوری صاحب کی بے پناہ مقبولیت پر دال ہے۔

*مفکر اسلام علامہ قمرالزماں خاں اعظمی صاحب مصباحی*
خلیفۂ حضور مفتی اعظم ہند علامہ قمرالزماں خاں اعظمی صاحب (سکریٹری جنرل ورلڈ اسلامک مشن،برطانیہ)روز اول ہی سے سنّی دعوت اسلامی کی نہ صرف سرپرستی فرمارہے ہیں بلکہ بیرون ممالک میں تحریک کی بنیادوں کوبھی مستحکم کررہے ہیں۔آپ جابجااپنے خطبات میں تحریک کی سرگرمیوں کو سراہتے اور امیر تحریک کی خدمات کاتذکرہ فرماتے ہیں۔سنّی دعوت اسلامی کے مقاصد پر آپ نے ایک خصوصی خطاب فرمایا،جس میں آپ نے تحریک کے اغراض ومقاصد کویوں پیش کیا:
’’سنی دعوت اسلامی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ صدیوں کی سوئی ہوئی قوم کو عمل کی طرف راغب کیاجائے،قوم مسلم کو اس کے فرائض اور محسوسات کو یاد دلایاجائے،اس کی ذمہ داریاں اسے بتائی جائیں،اسے مائل بعمل کیاجائے تاکہ جس زوال سے آج قوم مسلم دوچار ہے اس زوال کے ماحول سے وہ خود کو نکال سکے اور ترقی کی راہوں پرگامزن ہوسکے۔(خطبات مفکر اسلام ،جلد اول،ص ۳۰۶)

اسلام ایک مکمل نظام زندگی فراہم کرتاہے۔اسی لیے امیر تحریک اور ان کے تربیت یافتہ وفیض یافتہ مبلغین صرف چھ باتوں کی نہیں بلکہ مکمل اسلام کی دعوت پیش کرتے ہیں۔اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے مفکر اسلام اپنے خطاب میں فرماتے ہیں:
’’میں مبارک باد دیتاہوں سنی دعوت اسلامی کے قائدین کوکہ انہوں نے اس ضرورت کو پہلی بار محسوس کیاہے کہ اسلام کو ایک مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے متعارف کرایاجائے۔(خطبات مفکر اسلام ،جلد اول،ص ۱۰۱)

ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
’’پورااسلام پیش کرو،مکمل اسلام پیش کرو،سنّی دعوت اسلامی کے پلیٹ فارم سے نکلنے والاآپ کا داعی ،آپ کا مبلغ اور آپ کا نوجوان ساتھی اس یقین کے ساتھ نکل رہاہوکہ میرے شکم میں ایک دانہ بھی حرام نہیں ہے۔اس یقین کے ساتھ نکل رہاہوکہ میری نگاہ کبھی کسی نامحرم کو اختیاری نہیں دیکھے گی۔دل ونگاہ کے ایمان کے ساتھ نکل رہاہو۔میرے عزیز و!خوشی کی بات ہے کہ اس تحریک میں نوجوان زیادہ شامل ہیں۔خوداس تحریک کے جو امیر ہیں،وہ بھی نوجوان ہیں۔بہت اچھے وقت میں یہ ذمہ داری انہوں نے سنبھالی ہے۔خداان کو طویل عمر عطا فرمائے۔لیکن کسی بھی تحریک کے پھلنے اور پھولنے کے لیے آدھی صدی تو چاہیے نا؟انہوں نے ایسے وقت میں سنبھالہ ہے کہ آدھی صدی تک ان شآء اللہ اس کی ذمہ داری کو وہ نبھاسکتے ہیں۔نوجوانوں کو بھی انہوں نے ساتھ لیاہے اور یادرکھوجب کسی قوم کا نوجوان سنبھل جاتاہے تو پوری قوم سنبھل جاتی ہے۔(خطبات مفکر اسلام ،جلد اول،ص ۱۱۶)

حضور مفکر اسلام نے ان پچاس سالوں پر مزیدتبصرہ کرتے ہوئے کس قدر ہمت افزا کلمات ارشاد فرمائے ہیں:
’’ابھی توآپ نے کام کاآغاز کیاہے اور اللہ اکبر!یہ جم غفیر ہے۔دوسروں کا کام آج کا نہیں پچاس سال پرانا ہے۔پچاس سال میں تو آپ کے بینرکے نیچے ان شآء اللہ پورا ہندوستان ہوگا۔اگر آپ کا اخلاق رہا،آپ کی محبت رہی،پوری دنیاہوگی۔(خطبات مفکر اسلام ،جلد اول،ص ۱۴۵)

عالمی اجتماع میں دوران تقریر مفکر اسلام کایہ جملہ بھی ملاحظہ فرمائیں جس میں مفکر اسلام جیسے عالمی خطیب امیر تحریک کو اپناامیر تسلیم کرتے ہیں:
’’میراامیر Bycycle(سائیکل)پر چلتا ہے ،ڈھائی سوگز کے مکان میں رہتاہے،اور جب وہ آواز دیتا ہے تو ڈھاٹیں مارتاہوا سمندرموجود ہے۔‘‘(عالمی اجتماع،۲۰۱۰ئ)

اس جملے سے جہاں مفکراسلام کی سنّی دعوت اسلامی سے کلّی وابستگی کا علم ہوتاہے وہیںپوری دنیامیں امیر تحریک کے اثرات کا یقین بھی ہوتاہے۔ساتھ ہی علامہ قمرالزماں اعظمی جیسی مہتم بالشان شخصیت کی عاجزی و انکساری بھی مترشح ہوتی ہے کہ باوجود اس قدر اعلیٰ اوصاف کے وہ مولاناشاکر علی نوری صاحب کو محض آپ کی ہمہ گیر دعوتی سرگرمیوں کے سبب اپناامیر فرمارہے ہیں ۔

پیغام اعظمی نامی خطاب میں حضور مفکر اسلام امیر محترم کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ سنّی دعوت اسلامی میں شمولیت کی دعوت کس حسین پیرائے میں دے رہے ہیں:
’’میں سلام کرتاہوں حضرت مولاناقاری شاکر کی خدمات کواور ان کی تحریک کو اور ان کی تعمیر کو ان کی انسان سازی کو اور نوجوانوںپر ان کے اثرات کو۔میں آپ سے استدعاکرتاہوں کہ صرف سن کر مت چلے جائیے گا بلکہ کام کا طریقہ یہ ہے کہ سنّی دعوت اسلامی کے باضابطہ رکن بن جائیے،اپنے بچوں اور نوجوانوں کو شامل کیجئے اس تحریک میں اور اس تحریک کو عالمگیر تحریک بنادیجئے۔‘‘(خطبات اعظمی نمبر۱،بیان نمبر۱۵)

*حضرت علامہ غلام عبدالقادر علوی صاحب قبلہ*
امیرسنّی دعوت اسلامی نے مسلمانوں کے اعمال ،افعال، اخلاق ،کردارکی اصلاح ودرستی کی ہر ممکن کوشش کی۔کل تک جو لوگ فلمی نغموں کے شوقین تھے اب وہ نعت مصطفیﷺکے اسیر ہوچکے ہیں۔چنانچہ پیر طریقت، رہبر شریعت حضرت علامہ غلام عبدالقادر علوی صاحب قبلہ(سجادہ نشین خانقاہ فیض الرسول و ناظم اعلیٰ دارالعلوم فیض الرسول، برائوں شریف،یوپی)تحریر فرماتے ہیں:
’’ موصوف اپنے گوں نا گوں خصائل حمیدہ کے سبب خواص علما و مشائخ کی نگاہ میں انتہائی قدر و عزت سے دیکھے جاتے ہیں۔ اصلاح عقائد و اعمال کی عالمی تحریک ’’سُنّی دعوتِ اسلامی‘‘ کے بانی، امیر و سربراہ کی حیثیت سے ان کی مذہبی خدمات کا سلسلہ کئی بر اعظم تک پھیلا ہوا ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں کے لوگ دین کی تڑپ لے کر جب اس پاکیزہ تحریک سے وابستہ ہوئے تو ان کی زندگی میں اعتقادی، عملی و فکری حیثیت سے ایسا انقلاب آیا کہ وہ تحمل و بردباری، سنجیدگی و متانت، ایثار و خود داری، دین کے لئے جاں نثاری و فدا کاری کا مرقع اور صاحب کردار مسلمان کی عملی تصویر بن گئے۔ کچھ نے تو راستیِ گفتار و پاکیزگیِ کردار سے آراستہ ہو کر اپنے ماحول میں دعوت و اصلاح کے لئے خود کو اس طرح وقف کر دیا کہ دوسروں کے لئے رہبر و رہنما بن گئے۔‘‘(برکات شریعت ،مجلد،ص۴۳)

*حضرت علامہ مولانا افتخار احمد صاحب قادری مصباحی*
حضرت علامہ افتخار احمد صاحب مصباحی (استاذ دارالعلوم قادریہ غریب نواز، لیڈی اسمتھ، سائوتھ افریقہ)کا یہ اقتباس بھی چشم غور سے پڑھنے کے قابل ہے :
’’حضرت علامہ حافظ و قاری محمد شاکر نوری رضوی امیر سُنّی دعوتِ اسلامی جماعت اہلِ سنت کے قابل رشک علما میں سے ہیں، اعلاے کلمۃ اللہ کے سلسلے میں وہ اپنی تحریروں، تقریروں اور سرگرمیوں میں امتیازی شان کے مالک ہیں۔ ان کی خدمات کا دائرہ ایشیا، افریقہ، یورپ اور امریکہ وغیرہ میں بھی پھیلا ہوا ہے۔ ان کی نگارشات بڑی وقیع، اہم اور قرآن و سنت کی روشنی سے منور ہوتی ہیں۔ ان کا اسلوب دل کش، موثر اور جاذب قلب ہوتا ہے۔ جو فرماتے یا لکھتے ہیں اپنی ذات کو اس کا اولین مخاطب کرتے ہیں اس لیے بے شمار پروانے ان کی شمعِ حیات کے گرد رقصاں اور نثار ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ان کے رشحات قلم سے رونما ہونے والی متعدد نگارشات اس حقیقت پر شاہدِ عدل ہیں۔‘‘(برکات شریعت برائے خواتین،ص۴۳)

ایک اور مقام پر یوں لکھتے ہیں:
’’جو حضرات دعوت کی فیلڈ میں کام کرتے ہیں وہ یقینا عظیم و جلیل ہیں، کیوں کہ نبی کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے حجۃ الوداع کے تاریخی خطبہ میں فرمایا تھا ’’فَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ‘‘ حاضرین پر فرض ہے کہ میرا یہ پیغام غائبین تک پہنچا دیں۔گویا یہ حضرات نبی رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم و فرمان کو بجا لانے کی سعادت و برکت سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ امت کا جو فرد بھی یہ فریضہ انجام دے گا وہ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا اطاعت شعار اور سعادت مند امتی ہوگا۔ لیکن یہی فریضہ اگر علما انجام دیں گے تو اس کی اہمیت و جلالت دو چند ہوجاتی ہے۔ علما کی یہ مجلسیں سراپا نور و برکت ہوتی ہیں، زبانِ نبوت سے اس کا تعارف پڑھیے۔

سرورِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے محبوب صحابی جو حضور کی نعلین مبارک اور مسواک مقدس اٹھایا کرتے تھے اور حضور کو پیش کرتے اور دوسری خدمات بھی انجام دیتے وہ عظیم صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، ان سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبداللہ! علم دین کی مسجد میں تیرا بیٹھنا اس طرح کہ نہ تو قلم چھوئے اور نہ کوئی حرف لکھے یہ ایک ہزار غلاموں کے آزاد کرنے سے بھی افضل و بہتر ہے اور عالم کے چہرے کو تیرا دیکھنا ایک ہزار گھوڑوں سے افضل ہے جسے تو راہِ خدا میں صدقہ کرے اور عالم کو تیرا سلام عرض کرنا ایک ہزار سال کی عبادت سے افضل ہے۔(لباب الحدیث از امام سیوطی)سُنّی دعوتِ اسلامی کے امیر محب گرامی حضرت علامہ مولانا محمد شاکر علی نوری صاحب زید مجدہ کو مذکورہ حدیث کے مفہوم کے تناظر میں دیکھا جائے تو حسن ظن کہتا ہے کہ آپ بھی اس حدیث کے مصداق ہیں۔‘‘(برکات شریعت ،مجلد،ص۴۵)

*مولاناعطیف میاں قادری بدایونی*
مینارہ مسجد میں منعقدہ حضور نظمی میاں علیہ الرحمہ کے محفل عرس چہلم میں وقار ملت کی موجودگی میں خانقاہ عالیہ قادریہ بدایوں شریف کے چشم وچراغ مولاناعطیف میاں قادری بدایونی اپنے خطاب میں ضمناً مولاناشاکر علی نوری برکاتی صاحب کا تذکرۂ خیر فرماتے ہوئے ڈاکٹر اقبال اور خمار بارہ بنکوی کے اشعاریوں نذرکیاہے:
’’ آج پہلی بار اس محفل کی برکت سے امیر سنّی دعوت اسلامی حضرت مولاناحافظ شاکر برکاتی کی زیارت ہوئی۔۔۔۔میں بمبئی میں تھا،سنا تھا کہ بمبئی میں اجتماع ہوتا ہے،ایک دو بار گیا بھی تھاوہاں پر،میں سوچتاتھا ملاقات ہوگی تو ایک شعر عرض کروں گا علامہ اقبال کا،کہتا ہے شاعر مشرق کہ ؎
نہ گھبرا تندی باد مخالف سے اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
دوسرا شعر خمار بارہ بنکوی کاکہ
نہ ہاراہے عشق اورنہ دنیا تھکی ہے
دِیاجل رہاہے ہواچل رہی ہے

*علامہ نسیم اشرف حبیبی صاحب*
سنّی دعوت اسلامی کے عالمی سالانہ اجتماع کی اہمیت وافادیت پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ نسیم اشرف حبیبی صاحب(ڈربن) اپنے خطاب میںارشاد فرماتے ہیں:
’’سنّی دعوت اسلامی کے امیر ہمارے امیر دعوت مولاناشاکر علی صاحب نوری نے یہ سب کچھ اس لیے کیاہے کہ امت کے سامنے اس دنیاکی زندگی میںایک کامیاب زندگی،خوشگوار زندگی اور پھر اس زندگی کے بعد جو آخرت کی زندگی ہے اس کے لیے آپ کو اتناسرمایہ وہ دے دیں کہ جب آپ یہاں سے جائیں توآپ مالا مال ہوکر جائیں۔‘‘(عالمی اجتماع ،۲۰۱۱ئ)

*نبیرۂ صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی محمود اختر القادری صاحب*
اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو مقرر وخطیب بنایاہے کیوں کہ خطابت دعوت وتبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے۔آقا علیہ السلام نے حجۃ الوداع میں جو خطاب فرمایاوہ پوری دنیا کے انسانوں کے لیے عظیم قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔امیر محترم کے خطابت وکتابت کے متعلق نبیرۂ صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی محمود اختر القادری صاحب (رضوی امجدی دارالافتائ، ممبئی)تحریر فرماتے ہیں:
’’ مولانا حافظ وقاری محمد شاکر علی نوری امیر سنی دعوت اسلامی جس طرح اپنی دلنشیں تقریر کے ذریعہ اصلاح معاشرہ کی جدوجہد کررہے ہیں اسی طرح تحریر ولٹریچر کے ذریعہ بھی تبلیغ واشاعت مسلک اعلیٰ حضرت کی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ‘‘(برکات شریعت ،مجلد،ص۵۰)

*حضرت مفتی محمد اختر حسین قادری علیمی صاحب*
کسی مفکر کاقول ہے کہ لوگوں سے دعاکی گزارش کرنے سے بہتر ہے کہ خود کو اس قابل بنائو کہ اہل زمانہ تمہارے لئے دعاکریں۔امیر محترم کی دعوتی خدمات ارباب نقدونظر سے پوشیدہ نہیںہیں۔آپ کی سرگرمیوں اور اصلاحی کارناموں کودیکھتے ہوئے جامع معقولات و منقولات حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اختر حسین قادری علیمی خلیل آبادی(استاذ و مفتی دارالعلوم علیمیہ جمداشاہی، بستی یوپی)کے دل سے نکلے دعائیہ کلمات ملاحظہ فرمائیں:
’’خدائے بزرگ وبرتر ’’سنی دعوت اسلامی ‘‘کے امیر، ارکان واعیان اور متعلقین کو جزائے خیر دے جو اس دور پر فتن میں اسلامی اقدار و تعلیمات کو فروغ دینے کا بار گراں اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں اور امت مسلمہ کی اصلاح کے لئے پیہم عمل اور مسلسل جد و جہد میں مصروف ہیں ۔‘‘(برکات شریعت ،مجلد،ص۵۳)

*حضرت مفتی محمد اشرف رضا قادری مصباحی*
اسی طرح حضرت علامہ مفتی محمد اشرف رضا قادری مصباحی دام ظلہ النورانی(مفتی و قاضی ادارۂ شرعیہ مہاراشٹرا)بھی امیر محترم کے حق میں دعاگو ہیں:
’’اس دور پُر آشوب اور صلح کلی ماحول میں تحفظ عقائد اور صیانتِ دین و مذہب کے لئے مؤثر انداز میں کتابوں کی اشاعت کی سخت ضرورت ہے۔ جان و مال کا خوف دلا کر اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے دشمنوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا ایمان سوز حربہ شیاطین استعمال کر چکے، ایمان کی کھیتیاں جل رہی ہیں، عقیدہ کا باغ جھلس رہا ہے، امتیازِ سُنیت مجروح ہو رہا ہے، ایسے ماحول میں اسلام کے داعی، سُنیت کے مبلغ، مصلح قوم و ملت کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ دعا ہے کہ مولیٰ امیر سُنی دعوت اسلامی و ان کے رفقائے کار اور دین و سُنیت کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کر دینے کا جذبہ رکھنے والوں کو سرکارِ اعلیٰ حضرت سیدنا امام احمد رضا قادری حنفی بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مسلک کو خوب خوب عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (ماہ رمضان کیسے گزاریں؟ص۸)

*فاضل جلیل حضرت مولاناصادق رضامصباحی*
’’سنی دعوت اسلامی اور امیر سنی دعوت اسلامی اپنی دعوتی خدمات،اصلاحی تحریکات،تبلیغی مساعی اورتذکیری جد وجہد کی بنیادپربر صغیر سے نکل کر دیگر بر اعظموں میں حیرت انگیز کامیابیوں کے نقوش مرتسم کرچکے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک نے اپنی غیرمعمولی اصلاحی کوششوں سے تاریخ کوچہرے کوضیابخشی ہے اس سے انکارانصاف ودیانت سے انحراف ہوگا ۔ بیس سال قبل یہ تحریک وجودمیں لائی گئی اور تب سے اب تک اس نے سلکِ تاریخ میں کامرانیوں کے وہ گہر پروئے ہیں کہ بر صغیر کی دعوتی واصلاحی تاریخ اس کا تذکرہ کیے بغیر ہمیشہ نامکمل سمجھی جائے گی۔ آج عالم یہ ہے کہ مختلف سمتوں میں تحریک کاکام پھیلاہواہے اوربڑی برق رفتاری سے اس کے قدم آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔

امیر سنی دعوت اسلامی مولانامحمدشاکرنوری صاحب قبلہ بے حد مصروف شخصیت کا نام ہے تنظیم کے بہت سارے کام ہیں جو ان کے دماغ سے ہروقت چمٹے رہتے ہیں اورانہیں ہروقت متحرک رکھتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے یہ سارے کام حسن وخوبی سے اپنی منزل کو پہنچ رہے ہیں۔ان کاذ ہنی سفرہمیشہ خوب سے خوب ترکی تلاش میں جاری رہتاہے ۔ہمارے حضرت موصوف ملکی وغیر ملکی دعوتی دوروں کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کے میدان میں بھی اپنی فیض رسانی کادائرہ وسیع سے وسیع ترکرچکے ہیں ۔ان کی تقریبا دو درجن کتابیں زیور طباعت سے آراستہ ہوکر قارئین کی میز پر سج چکی ہیں۔‘‘(برکات شریعت ،مجلد،ص۵۴)

مفتی توفیق احسن برکاتی مصباحی
خانقاہ برکاتیہ کا ترجمان مجلہ’’اہلسنّت کی آواز‘‘ہر سال مختلف عنوانات پر قیمتی اثاثہ شائع کرتاہے۔سالنامہ کا اکیسواں شمارہ ’’خلفائے خاندان برکات ‘‘پر مشتمل ہے۔جس میں خلفائے شمس مارہرہ،خلفائے خاتم الاکابر،خلفائے سرکار نور،خلفائے مجددبرکاتیت،خلفائے تاج العلماء خلفائے سیدالعلما،خلفائے احسن العلما،خلفائے وارث پنجتن،خلفائے سید ملت ،خلفائے امین ملت اور خلفائے رفیق ملت کے تذکرے شامل ہیں۔خلفائے سید ملت کے باب میںحضور امیر سنّی دعوت اسلامی کے افکار وتعلیمات کے حوالے مفتی *توفیق احسن برکاتی مصباحی صاحب* رقم طراز ہیں:
’’ مولانا محمد شاکر نوری اپنے سینے میں ایک درد مند دل رکھتے ہیں جو امت مسلمہ کی زبوں حالی ، تحصیل علوم کے تئیں ان کی عدم دلچسپی اور دین سے دوری کو دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہے ،ان کی خواہش ہے کہ سنی دعوت اسلامی کی خدمات کو اتنی وسعت دے دی جائے کہ ہماری نوجوان نسل دین سیکھنے پر آمادہ ، اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے میں سنجیدہ ہو جائے ۔ ان کے افکار میں دینی روشنی موجود ہو ، ان کے کردار وعمل سے اسلام کی کرنیں پھوٹیں ، وہ دینی وعلمی اعتبار سے پختہ کار ہوجائیں ۔اور سب سے بڑی فکر یہ ہے کہ انھیں سچا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم حاصل ہو جائے ۔ ’’ زمیں کے اوپر کام ، زمیں کے نیچے آرام ‘‘، اور’’ اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت ‘‘ نوجوان علما کا مطمح نظر ہو ، ان میں دعوتی مزاج پیدا کیا جائے ، انھیں سیاسی شعور عطا کیا جائے ، دور حاضر کے چیلنجز کا ادراک ہو ، جائز حدود میں رہتے ہوئے ماڈرن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے ، دینی وعصری تعلیم کا پختہ انتظام ہو اور تعلیم کے ساتھ ساتھ منظم تربیت کا بھی انتظام ہو ۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ’’ ایک مرتبہ میں نے حضور مفکر اسلام دام ظلہ سے عرض کیا کہ اختلافات کی ناگفتہ بہ پوزیشن میں دین کا کام کیسے کیا جائے ؟ تو بڑی پیاری بات انھوں نے ارشاد فرمائی ، کہاکہ’’تم اپنے حصے کی شمع جلاتے جاؤ ۔ ‘‘ یعنی کسی کی فکر کیے بغیر جتنا کام تم کر سکتے ہو اتنا ضرور کرو ۔ ‘‘ (اہل سنت کی آواز،۲۰۱۴ئ،ص۴۴۳)

انتہائی قلیل عرصے میں اپنے مخلصانہ دعوتی رویوں سے مولاناشاکر علی نوری صاحب نے عالمی سطح پر اصلاح فکر واعتقاد کا جو کار خیر انجام دیاہے اس کویوں توسیکڑوں افرادمسلسل سراہتے رہتے ہیں۔ہم نے اپنے اس مختصر سے مضمون میں اہل سنّت وجماعت کے ممتازاور جیداکابرعلماوقلم کار حضرات کے تأثرات کوجمع کرنے کی کوشش کی ہے۔انشأ اللہ اس مضمون کی اگلی قسطوں میں دیگر علمائے کرام کے ملفوظات قلم بند کیے جائینگے۔ تاکہ اس امر کاواضح طور پر اظہار ہوسکے کہ خلوص وللہیت سے کام کرنے والے داعی دین مولاناشاکرعلی نوری صاحب کو ہمارے یہ علماکیسی عزت بخشتے ہیںاور ساتھ ہی سنّی دعوت اسلامی جیسی تحریک کو تحسینی نظروں سے دیکھتے ہیں۔سچ ہے کہ مولاناشاکر علی نوری صاحب کے اچھوتے ،منفرد اور دل نشین طرز خطابت سے نہ جانے کتنے گم گشتہ راہ افراد نے راہِ ہدایت پائی۔اللہ کریم جل جلالہ ،رسول کریم ﷺکے صدقہ وطفیل آپ کا سایۂ عاطفت تادیر قائم رکھے۔

Monday, 31 October 2016

*سنی اتحاد کونسل کا 2 نومبرکو دھرنے میں شرکت کا اعلان*



اکتوبر 31, 2016Published in پنجاب پیر, 31 اکتوبر 2016 13:05
چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا
سُنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے اعلان کیا ہے کہ سُنی اتحاد کونسل 2 نومبر کو اسلام آباد کے دھرنے میں بھر پور شرکت کرے گی، حکومتی رکاوٹوں کو پاش پاش کرکے اسلام آباد پہنچیں گے۔
صاحبزادہ حامد رضا کا کہنا تھا کہ حکومت راستے بندکرکے دھرنے کو روک نہیں سکتی، حکمران ملک میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا نہ کریں، سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اورعمران خان کے گھرکا محاصرہ غیر جمہوری طرز عمل ہے، حکومت سے فائنل میچ کے لیے تیاری کر لی ہے ۔

کرپٹ حکمرانوں سے نجات کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔

چیرمین سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ تمام کشتیاں جلاکر اسلام آباد کا رُخ کریں گے، سنی اتحاد کونسل نے 2 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے میں شرکت کے لیے ملک بھر کے کارکنوں کو ہدایات جاری کر دی ہیں، شریف خاندان نے پیسے کے زور پر ملک کویرغمال بنا رکھا ہے، پرویز رشید کے استعفے کے بعد مزید استعفے بھی آئیں گے۔


Tuesday, 25 October 2016

*دبئی : الجزائری بچہ 35 لاکھ طلبہ پر سبقت لے گیا*


پیر 23 محرم 1438هـ - 24 اکتوبر 2016م



 
دبئی – العربیہ ڈاٹ نیٹ
دبئی کے حکمراں الشیخ محمد بن راشد اآل مکتوم نے الجزائر کے 6 سالہ بچے محمد عبداللہ فرح کو Arab Reading Challenge میں اول پوزیشن حاصل کرنے پر انعام دیا۔
مقابلے میں 15 عرب ممالک کے مجموعی طور پر 35 لاکھ 90 ہزار 743 طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔ ان طلبہ و طالبات کا تعلق پہلی جماعت سے لے کر بارہویں جماعت تک تھا اور حتمی مرحلے سمیت پورے مقابلے میں یہ بچے دس کروڑ سے زیادہ کتابیں پڑھنے میں کامیاب رہے۔
پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے الجزائری طالب علم محمد نے مقابلے میں 20 سے زیادہ مصنفین کے 50 عنوانات کو پڑھ کر ان کی تلخیص کی۔
محمد عبداللہ فرح الجزائر کے شہر قسنطینہ میں " زیادی بطو" پرائمری اسکول میں پہلی کلاس کا طالب علم ہے۔ وہ الجزائر کی سطح پر 6 لاکھ 10 ہزار طلبہ و طالبات پر برتری حاصل کر کے حتمی مرحلے میں پہنچا تھا۔
اسی حوالے سے فلسطین کے ہائی اسکول "طلائع الامل" نے مذکورہ چیلنج کے مقابلے میں بہترین اسکول کا انعام جیت لیا۔ حتمی مرحلے میں 5 اسکولوں کے درمیان مقابلہ تھا۔


Saturday, 22 October 2016

*ہمارے لیے شریعت مصطفیﷺ کافی ہے اس میں کسی طرح کی تبدیلی ہمیں منظور نہیں*


*تاریخی عزت رسولﷺ کانفرنس سے اشرف الفقہاء کا خطاب- 50ہزار سے زائد سنی مسلمانوں کی شرکت*

مالیگاؤں22؍ اکتوبر: خواتین اسلام کورٹ میں اپنے شرعی معاملات نہ لے جائیں۔ اپنے فیصلے سُنّی دارالافتا میں لے جائیں۔ مصطفی ﷺ کی شریعت کے مطابق فیصلہ ہوگااور اسے قبول کیا جائے گا تو دنیا و آخرت میں نیکیاں ہیں۔ ضرورت ہوئی تو شریعت کی حفاظت و حمایت کے لیے خواتین بھی باپردہ ہو کر نکلیں۔آپ لوگ شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف کے احکام پر عمل کرتے ہوئے مسلم پرسنل لا کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہو جائیں۔ ہمارے لیے بریلی شریف کے احکام کافی ہیں۔ ہم شریعت مصطفی ﷺ سے پیار کرتے ہیںاور شریعت پر ہی عمل کریں گے۔ شریعت کی پیروی میں ہماری نجات ہے۔ مسلم پرسنل لا کے تحفظ کے لیے اسلاف کے طریقوں پر چلیں گے۔اس طرح کا اظہار خیال مفتی اعظم مہاراشٹر اشرف الفقہاء مفتی محمد مجیب اشرف نے 21؍اکتوبر کی شب دیانہ میں منعقدہ تاریخی عزت رسول کانفرنس میں 50ہزار سے زائد مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ آپ نے کہا کہ عزت مصطفی ﷺ کی گلی میں ملے گی۔ عزت اللہ کے یہاں ہے عزت اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور سچے مومنین یعنی غوث و خواجہ اور اولیائے اسلام کے لیے ہے؛ اور ان ہی کے دامن سے وابستگی میں مسلمانوں کی عزت ہے۔ عزت لینا ہو تو درِ مصطفی ﷺ پہ آؤ۔ مصطفی ﷺ کو راضی کر لو رب راضی ہو جائے گا۔ عزت کسی کی ملکیت نہیں۔ عزت میرے رب کی ہے اور اس کی تقسیم بارگاہِ رسول ﷺ کے ذریعے ہے۔ عزت حاصل کرنا ہے تو سچے مسلمان بن جاؤ۔ اللہ کی بارگاہ میں جھکنے کا انداز اختیار کرو۔ یہی عزت رسول کانفرنس کا مقصد ہے۔ آپ نے دو ٹوک فرمایا کہ ظالم انجام کو پہنچے گا۔ حالات بدلیں گے۔ آج مسلم پرسنل لا کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کل ابرہہ نے کعبے کو ڈھانے کی کوشش کی، اللہ نے ابابیل بھیج کر انھیں تباہ کیا۔نمرود کے تکبر کو ایک کمزور مچھر کے ذریعے خاک میں ملایا۔ تعظیم نبی ﷺ کے سلسلے میں درجنوں آیات سے دلائل پیش کیے اور کہا کہ قرآن نے تعظیم نبی ﷺ کی تلقین کی۔ قرآن کریم نے تین نکات کی تعلیم دی: ایمان و عقیدہ، مصطفی ﷺ کی عزت، صبح و شام خدا کی عبادت ۔ عقیدہ محفوظ ہو تو عمل صالح عزت کا باعث بنے گا۔اشرف الفقہاء نے مزید فرمایا کہ تحفظ شریعت کے لیے امام حسین کا کردار دیکھو، یزید نے مسلم پرسنل لا پر حملہ کیا۔ قرآن کے قانون کو توڑا۔ امام حسین شریعت کی حفاظت کے لیے شہید ہوئے۔ اپنا خون دے کر بھی ہم شریعت کی حفاظت کریں گے۔ شریعت معاشرے کو سنوارتی ہے۔ شریعت کا قانون اللہ کا بنایا ہوا ہے۔ اس میں تبدیلی کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔ اسلام نے دیانت و انصاف کی بنیاد پر ۴؍شادیوں کی مشروط اجازت دی۔ ہم یکساں سول کوڈ قبول نہیں کریں گے۔ اس قسم کی تبدیلی کے لیے ہرگز راضی نہیں۔

    اس موقع پر نوری مشن کی ۴؍ مطبوعات کا اجرا بدست اشرف الفقہاء عمل میں آیا۔ صدارت شہزادۂ غوث الاعظم حضرت سید عبدالقادر جیلانی نے فرمائی۔ کانفرنس کا آغاز تلاوت کلام اللہ سے ہوا۔ جب کہ ابتدائی خطبہ مولانا نورالحسن رضوی مصباحی نے طلاق ثلاثہ کے عنوان پر ارشاد فرمایا اور احادیث کے ذریعے اسلامی فیصلوں کی وضاحت کی۔ بتایا کہ اسلام کے نزدیک تین طلاق تین ہی مانی گئی ہے۔ نظامت کے فرائض وسیم احمد رضوی نے انجام دیے۔ اس موقع پر مسلم پرسنل لا کے ضمن میں اہم تجاویز پیش کی گئیں جن کی خواندگی غلام مصطفی رضوی نے کی۔ تجاویز کو مجمع نے ہاتھوں کو بلند کر کے تائید دی۔۵۰۰۰؍ سے زائد خواتین نے بھی تجاویز کو تائید دی۔ مسند پر جمیع علمائے اہلسنّت مالیگاؤں کے علاوہ ائمہ کرام موجود تھے۔ جب کہ مہمانانِ کرام میں وکلا، اساتذہ، ڈاکٹرز، اہلِ علم و دانش کے علاوہ تمام سنی تنظیموں، تحریکوں، اداروں کے ذمہ داران موجود تھے۔ مجمع اس قدر تھا کہ کانفرنس کے اطراف کی تمام سڑکیں، گلیاں پُر تھیں۔ دھولیہ، چالیس گاؤں، منماڈ، جلگاؤں، اورنگ آباد ،سٹانہ،ایولہ، ناسک سمیت اطراف کے شہروں سے کافی تعداد میں سُنّی وفود نے شرکت کی۔نوری مشن کے سعید رضا، عتیق الرحمن رضوی، فرید رضوی، جنید رضا، شہباز اختر رضوی، جاوید رضوی وغیرہم نے کانفرنس کے جملہ امور کی نگرانی کی۔کانفرنس کی تاریخی کامیابی کے لیے نوری مشن کی معاونت علاقۂ دیانہ کی تمام تنظیموں نے کی اور رضا کارانہ طور پر انتظامات کو سنبھالا۔جن میں تاج الشریعہ اکیڈمی، ادارۂ کلثوم اسٹار، رہنما گروپ، ادارۂ مجددین اسلام، الرضا گروپ، نیو الرضا گروپ، نوجیون گروپ، ناشران اہل بیت، فیضان تاج الشریعہ گروپ، اسٹڈی گرپ، نوری گروپ، مسجد کلثوم اشرفی، مسجد رقیہ حجن،غریب نواز اکیڈمی، مسجد فاروق اعظم سے منسلک نوجوان شامل ہیں۔ سلام و دعا پر کانفرنس اختتام پذیر ہوئی۔ ہزاروں مسلمان سلسلۂ قادریہ رضویہ میں اشرف الفقہاء کے ہاتھوں بیعت ہوئے۔جب کہ شام میں مفتی اعظم نوری چوک کے لیے خصوصی یادگار کی تعمیر کا سنگ بنیاد نئے بس اسٹینڈ کے پاس اشرف الفقہاء کے ہاتھوں رکھا گیا۔ جس کے لیے ایم ایل اے جناب آصف شیخ رشید نے فنڈ دیا ہے۔ اس موقع پر ایم ایل اے موصوف کا استقبال نوری مشن نے کیا اور اشرف الفقہاء نے یادگارِ مفتی اعظم کی تعمیر کے لیے دعاؤں سے نوازا اور ایم ایل موصوف کو مبارک باد دی۔ نمازِ جمعہ سے قبل ایمان و عقیدے کی اہمیت پر اشرف الفقہاء نے مسجد اہلسنّت جونا قبرستان کیمپ میں نصیحت کی۔بعد نمازِ عصر جامعہ حنفیہ سنیہ میں احسن العلماء ڈائننگ ہال کا افتتاح فرمایا۔جس کی صدارت ڈاکٹر حامد اقبال نے کی۔ کانفرنس کی آڈیو نیز خطبۂ جمعہ کو لائیو نشر کیا گیا۔

٭٭٭

Thursday, 20 October 2016

*موصل سے دولت اسلامیہ کے رہنما فرار ہورہے ہیں: امریکہ*



21 منٹ پہلے

موصل شہر کو دولت اسلامیہ سے آزاد کرانے کے لیے عراقی فوجوں نے جنوب کی جانب سے جبکہ کردوں کے اتحاد نے مشرق کی جانب نے چڑھائی کر رکھی ہے
امریکی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ انھیں ایسے اشارے ملے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عراقی فوج کے موصل شہر کے محاصرے کے ساتھ ہی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے کئی رہنما شہر چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔
جنرل گیری ولسکی نے کہا: ' اس میں کوئی شک نہیں کہ عراقی سکیورٹی فورسز کی پیش قدمی جاری ہے۔'
موصل شہر کو دولت اسلامیہ سے آزاد کرانے کے لیے عراقی فوجوں نے جنوب کی جانب سے جبکہ کردوں کے اتحاد نے مشرق کی جانب نے چڑھائی کر رکھی ہے۔
جنرل ولسکی نے وہاں کے حالات سے متعلق اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا: 'ہم نے موصل سے نقل و حرکت دیکھی ہے، ہمیں ایسے اشارے ملے ہیں کہ ان کے قائد شہر چھوڑ چکے ہیں۔'
لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ موصل سے دولت اسلامیہ کے کون سے رہنما فرار ہوئے ہیں یا پھر فرار ہوکر کہاں گئے ہی؟

موصل شہر کی جانب عراقی فوج کی پیش قدمی جاری ہے جبکہ گھیرا تنگ ہونے کے ساتھ ہی دولت اسلامیہ کے رہنما فرار ہورہے ہیں
دولت اسلامیہ کے رہنما ابو بکر البغدادی کے ٹھکانے سے متعلق کچھ معلومات نہیں ہیں تاہم بعض اطلاعات کے مطابق وہ موصل میں ہیں جبکہ بعض کے مطابق وہ عراق کے اس شمالی شہر کو چھوڑ چکے ہیں۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اب بھی موصل میں دولت اسلامیہ کے تقریبا 50000 جنگجو موجود ہیں۔
مشرق وسطی سے متعلق بی بی سی کے تجزیہ کار الین جانسٹن کا کہنا ہے کہ نقل و حرکت کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دولت اسلامیہ کے جنگجو محاذ جنگ کے علاقے کی جانب کوچ کر رہے ہوں۔ ان کے مطابق دولت اسلامیہ کے سخت گیر جنگجو شہر میں رہ کر لڑنے کو ترجیح دیں گے۔
جنرل ولسکی، جودولت اسلامیہ کے خلاف امریکی قیادت میں ہونے والے زمینی آپریشن کے سربراہ ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں موصل میں لڑنے والے زیادہ تر جنگجوؤں کا تعلق بیرونی ممالک سے ہوگا جو وہاں رکیں گے۔
ان کا کہنا تھا: ' بیرونی جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد کے رکنے کا امکان ہے کیونکہ مقامی جنگجؤں کے مقابلے میں وہاں سے ان کا نکلنا آسان نہیں ہوگا، تو ہمیں وہاں پر ان سے لڑائی کی توقع ہے۔'

متنازع علاقے سے گذشتہ دس روز سے اب تک تقریبا 5000 ہزار لوگ نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں جنھوں نے شام کی سرحد پر واقع کیمپ میں پناہ لے رکھی ہے جبکہ تقریبا ایسے 10000 لوگ سرحد پر انتظار کر رہے ہیں۔
امدادی ادارے 'سیو دی چلڈرین' کا کہنا ہے کہ متنازع علاقے سے گذشتہ دس روز سے اب تک تقریباً 5000 ہزار لوگ نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں جنھوں نے شام کی سرحد پر واقع کیمپ میں پناہ لے رکھی ہے جبکہ تقریباً ایسے 10000 لوگ سرحد پر انتظار کر رہے ہیں۔
الہول نامی اس کیمپ میں تقریبا 7500 لوگوں کے ہی رہنے کی جگہ ہے لیکن اس وقت اس میں تقریبا 9000 لوگوں نے پناہ لے رکھی ہے۔
تنظیم کے مطابق یہاں کئی طرح کی سہولیات کی کمی ہے تاہم کیمپ کو وسیع کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
بی بی سی کے نامہ نگار رچرڈ گیلپن نے کہا کہ امکان ہے کہ ادارہ اس کیمپ کو ابتدائی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرے اور پھر انھیں واپس عراق میں کسی محفوظ مقام تک لے جائے۔
بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے انخلا سے ظاہر ہوتا ہے کہ دولتِ اسلامیہ لوگوں کو موصل میں روک نہیں پا رہی ہے۔


Tuesday, 18 October 2016

🌕🌕مودی اور مسلمان میں فرق🌕🌕

     🌹ضرورملاحظہ فرمائیے🌹

①۔.....  نکاح کے بعد میاں بیوی میں موافقت نہ ہوسکی. شوہر گھر سے چلاگیا، پھر اس نے پلٹ کر بیوی کی خبر نہ لی. وہ ایک ثقافتی تنظیم کا ممبر بن گیا، پھر اس نے سیاست میں دلچسپی لینی شروع کردی. وہ ایک بڑا نیتا بڑا سیاستدان بن گیا. آہستہ آہستہ وہ اقتدار کے مراکز پر قابض ہوگیا، اس کے نام کا ڈنکا بجنے لگا. اُدھر بیوی نے ایک اسکول جوائن کرلیا. دن گزرتے رہے، یہاں تک کہ اسکول سے اس کا ریٹائرمنٹ بھی ہوگیا. اس نے پوری زندگی شوہر کا انتظار کرتے اور اس کی آس لگائے ہوئے گزار دی، لیکن شوہر کو اب اس میں کوئی دلچسپی باقی نہ بچی تھی.

②..... نکاح کے بعد میاں بیوی میں موافقت نہ ہوسکی. شوہر کو غصہ آگیا، اس نے تین طلاق دے دی، بے وقوف تھا، ایک طلاق سے کام چل سکتا تھا، بلاوجہ اور بلاضرورت اس نے تین طلاق دے دی. بہ ہر حال دونوں کے راستے جدا جدا ہوگئے. لڑکے نے دوسری لڑکی سے نکاح کرلیا اور پُر مسرت ازدواجی زندگی گزارنے لگا. لڑکی کا نکاح دوسرے لڑکے سے ہوگیا اور وہ بھی ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگی.

*دونوں رویّوں میں سے کون سا رویّہ درست ہے؟*

*بیوی کو لٹکا کر رکھنا، تاکہ وہ گھٹ گھٹ کر پوری زندگی کاٹ دے؟*

*یا۔۔۔۔۔۔۔۔*

*اسے آزاد کردینا، تاکہ وہ دوسرا رشتہ کرکے نئی زندگی کا آغاز کرے؟*

میں حیرت زدہ ہوں کہ ملک کے دانشور، ترقی پسند، آزاد خیال، سیاست داں، سماجی کارکنان، قانون داں، عدل و انصاف کے اداروں سے وابستہ لوگ اور میڈیا، سب دوسرے رویے کو ظالمانہ، دہشت گردانہ اور مجرمانہ قرار دے رہے ہیں. گویا وہ زبانِ حال سے اوّل الذکر رویّے کے حامی ہیں.

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

#HangAsia                .  🔖 ایک شیعہ عالم کی حق بات نے زلزلہ برپا کر دیا ھے:


الجزیرہ عربی ٹی وی 📺 کے پروگرام "اتجاہ معاکس" کے اینکر پرسن "ڈاکٹر فیصل قاسم" نے کہا ھے کہ : عراق کے مشہور شیعہ عالم دین اور راھنما مقتدی الصدر کے معاون نے ایک مضمون لکھا ھے جس کا نام ھے   👇🏻👇🏻
 " ھم بے حیا قوم ھیں" مضمون میں مندرجہ ذیل حقائق پر روشنی ڈالی ھے:
🔮  شام، عراق، فلسطین اور فارس کو فتح کرنے والا عمر بن الخطاب (سنی) تھے۔
🔮  سند، ھند اور ماوراء النہر کو فتح کرنے والا محمد بن قاسم (سنی) تھے۔
🔮  شمالی افریقہ کو فتح کرنے والا قتیبہ بن مسلم (سنی) تھے۔
🔮  اندلس کو فتح کرنے والا طارق بن زیاد اور موسی بن نصیر دونوں (سنی) تھے۔
🔮  قسطنطینیہ کو فتح کرنے والا محمد الفاتح (سنی) تھے۔
🔮  صقلیہ کو فتح کرنے والا اسد بن الفرات (سنی) تھے۔
🔮  اندلس کو مینارہ نور اور تہذیبوں کا مرکز بنانے والی خلافت بنو امیہ کے حکمران (سنی) تھے۔
🔮  تاتاریوں کو عین جالوت میں شکست دینے والا سیف الدین قطز اور رکن الدین بیبرس دونوں (سنی) تھے۔
🔮  صلیبیوں کو حطین میں شکست دینے والے صلاح الدین ایوبی (سنی) تھے۔
🔮  مراکش میں ھسپانویوں کا غرور خاک میں ملانے والا عبد الکریم الخطابی (سنی) تھے۔
🔮  اٹلی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے والے عمر المختار (سنی) تھے۔
🔮  چیچنیا میں روسی ریچھ کو زخمی کرنے اور گرزنی شہر کو فتح والے کمانڈر خطاب (سنی) تھے۔
🔮  افغانستان میں نیٹو کا ناگ زمین سے رگڑنے والے (سنی) تھے۔
🔮  عراق سے امریکہ کو بھاگنے پر مجبور کرنے والے (سنی تھے)۔
🔮  فلسطین میں یہود کی نیندیں حرام کرنے والے (سنی) ھیں۔

🔳 ھم اپنے بچوں کو کیا بتائیں گے؟؟!!

🔘  حسین رضی اللہ عنہ کو عراق بھلا کر کربلاء میں بے یارومدد گار چھوڑنے والے مختار ثقفی (شیعہ) تھے اور ان کو شهید کرنے والے بهی ( شیعہ ) تهے۔
🔘  عباسی خلیفہ کے خلاف سازش کر کے تاتاریوں سے ملنے والے ابن علقمی (شیعہ) تھے ۔
🔘  ھلاکوخان کا میک اپ کرنے والے نصیر الدین طوسی (شیعہ) تھے۔
🔘  تاتاریوں کو بغداد میں خوش آمدید کہنے والے (شیعہ) تھے۔
🔘  شام پر تاتاریوں کے حملوں میں مدد کرنے والے (شیعہ) تھے۔
🔘  مسلمانوں کے خلاف فرنگیوں کے اتحادی بننے والے فاطمیین (شیعہ) تھے۔
🔘  سلجوقی سلطان طغرل بیگ بساسیری سے عہد شکنی کرکے دشمنوں سے ملنے والے (شیعہ) تھے۔
🔘  فلسطین پر صلیبیوں کے حملے میں ان کی مدد کرنے والا احمد بن عطاء (شیعہ) تھے۔
🔘  صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنانے والے کنز الدولۃ (شیعہ)تھے۔
🔘 شام میں ھلاکوں خان کا استقبال کرنے والا کمال الدین بن بدر التفلیسی (شیعہ) تھے۔
🔘 حاجیوں کو قتل کر کے حجر اسود کو چرانے والا ابو طاھر قرمطی (شیعہ) تھے۔
🔘  شام پر محمد علی کے حملے میں مدد کرنے والے ( شیعہ) تھے۔
🔘  یمن میں اسلامی مراکز پر حملے کرنے والے حوثی (شیعہ) ھیں۔
🔘  عراق پر امریکی حملے کو خوش آمدید کر کے ان کی مدد کرنے والے سیستانی اور حکیم (شیعہ) ھیں۔
🔘 افغانستان پر نیٹو کے حملے کو خوش آئند کہہ کر ان کی مدد کرنے والے ایرانی حکمران (شیعہ) ھیں۔
🔘  شام میں امریکہ کی مدد اور بشار سے مل کر لاکھوں مسلمانوں کو قتل کر نے والے اور مسلمانوں کی آزادی کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کرنے والے عراقی حکمران، ایرانی حکمران اور لبنان کی حزب اللہ (شیعہ) ھیں۔
🔘  خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر کے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرنے والا اسماعیل صفوی (شیعہ) تھے۔
🔘  برما کے مسلمانوں کے قتل پر بت پرستوں کی حمایت کا اعلان کرنے والا احمد نجاد (شیعہ) ھے۔
🔘  شام کے لوگوں پر بشاری کی بمباری کی حمایت کرنے والا اور اس کو سرخ لکیر قرار دینے والا خامنئی (شیعہ) ھے۔
🔘  صحابہ کو گالیاں دینے والے اور خلفائے راشدین اور اور امہات المومنین کے بارے میں شرمناک باتیں لکھنے والے قلم (شیعہ) ھی ھیں۔
🔘  سلطان ٹیپو کے خلاف انگریزوں سے ملنے والے میر جعفر اور میر صادق (شیعہ) تھے۔

اگر یہ سارے واقعات لکھے جائیں تو کئی جلدوں 📚 کی کتابیں تیار ھو سکتی ھیں، ھم اپنی نسلوں کو کیا جواب دیں گے ؟؟!!

یہ ☝ سب خود ایک شیعہ عالم کہہ رھا ھے

Monday, 17 October 2016

*عراقی شہر موصل کو دولت اسلامیہ سے آزاد کرانے کے لیے آپریشن کا آغاز*


5 گھنٹے پہلے


عراق کے وزیرِ اعظم حیدر العبادی نے اعلان کیا ہے کہ موصل سے دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کا قبضہ ختم کروانے کے لیے آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
موصل عراق میں دولتِ اسلامیہ کا آخری گڑھ ہے اور اس کے شدت پسندوں نے سنہ 2014 میں شہر پر قبضہ کیا تھا۔

موصل ہی میں دولت اسلامیہ کے رہنما ابو بکر البغدادی نے عراق اور شام میں اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں خلافت کا اعلان کیا تھا۔
موصل کو دولت اسلامیہ کے قبضے سے آزاد کروانے کے لیے منصوبہ بندی کئی ماہ سے جاری تھی اور پیر کی صبح عراقی توپخانے نے موصل پر گولہ باری کا آغاز کیا جس کے ساتھ ہی اس جنگ کا آغاز ہوگیا۔
جس میں عراقی اور اتحادی افواج اور کرد پیشمرگاہ کے 30 ہزار جوان حصہ لے رہے ہیں۔
گولہ باری کے ساتھ ساتھ ٹینکوں نے بھی موصل کی جانب پیش قدمی شروع کر دی ہے۔
موصل میں کارروائی کے آغاز پر اقوامِ متحدہ نے شہر میں محصور 15 لاکھ افراد کے تحفظ کے حوالے سے 'شدید خدشات' کا اظہار کیا ہے۔
عراقی حکام کا کہنا ہے کہ موصل پر عراقی افواج کا دوبارہ قبضہ ہونا درحقیقت عراق میں دولتِ اسلامیہ کی مکمل شکست کے مترادف ہوگا۔

اس کارروائی میں مدد کرنے والے امریکی کمانڈر جنرل سٹیفن ٹاؤنسینڈ کا کہنا ہے کہ یہ جنگ مشکل ہوگی اور اس کی تکمیل میں کئی ہفتے لگیں گے۔
عراقی وزیر اعظم نے فوجی کارروائی کا اعلان کرتے ہوئے کہا 'فتح کا وقت آ گیا ہے اور موصل کو آزاد کرانے کا وقت آ گیا ہے۔ آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ آپریشن کا آغاز ہو گیا ہے تاکہ آپ کو داعش کے تشدد اور دہشت گردی سے آزاد کرایا جا سکے۔'
انھوں نے کہا کہ 'انشاءاللہ ہم لوگ موصل میں ملیں گے اور دولت اسلامیہ سے آپ کی نجات کا جشن منائیں گے تاکہ ہم لوگ ایک بار پھر سے مل جل کر ساتھ رہ سکیں۔ ہم اپنے محبوب شہر موصل کی تعمیر نو کے لیے داعش کو تمام مذاہب مل کر شکست دیں گے۔'
اقوام متحدہ نے موصل میں لڑائی کے حوالے سے کہا تھا کہ اس سے شہریوں پر بہت بڑے پیمانے پر اثر پڑے گا اور ایک اندازے کے مطابق موصل اور اس کے گردو نواح میں رہنے والے 15 لاکھ افراد متاثر ہوں گے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ موصل میں جب معرکہ شروع ہوگا تو شہر کے جنوب سے چار لاکھ افراد نقل مکانی کریں گے اور مشرق سے تقریباً ڈھائی لاکھ اور شمالی مغرب سے ایک لاکھ افراد نقل مکانی کریں گے۔
بریگیڈیئر جنرل حیدر فاضل نے امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موصل پر سے دولت اسلامیہ کا کنٹرول ختم کرانے کے آپریشن میں 25 ہزار فوجی حصہ لے رہے ہیں۔

Sunday, 16 October 2016

*::: مشایخ اشرفیہ کا اعلان - ہم حکومت کی شریعت میں مداخلت کی پر زور مذمت کرتے ہیں! :::*


*مظہر غوث العالم، شیخ الاسلام والمسلمين، رئيس المحققين، اشرف الاشراف، صاحب تفسیر اشرفی، جانشین محدث اعظم ہند حضرت علامہ مولانا سید محمد مدنی اشرفی جیلانی کچهوچهوی مدظله العالی کی موجودگی اور سرپرستی میں 16 اکٹوبر بروز اتوار احمدآباد، گجرات میں "جشن سید" سے لاکهوں سنی مسلمانان ہند سے خطاب کرتے ہوئے سجادہ نشین آستانہ محدث اعظم ہند کچهوچهوی - فاضل بغداد حضرت علامہ مولانا سید حسن عسکری میاں اشرفی جیلانی کچھوچھوی مدظله العالی نے بھارت حکومت کی طلاق ثلاثہ و دیگر قوانین اسلام میں مداخلت کی جم کر مذمت کی۔*

*خطاب کرتے ہوئے حضرت فاضل بغداد نے کہا:*

*تجھ سے ڈرتے نہیں اے قوت لشکر والے!*
*ہم غلامان محمد ہیں بہتر والے!*

*ظلم کر ظلم میرے صبر کی کیا حد ہے نہ پوچھ!*
*شکوہ دریا کا نہیں کرتے سمندر والے!*

*کیوں تڑپتا ہے ہمیں دیکھ کر دریائے فرات!*
*آب سے پیاس بجھاتے نہیں کوثر والے!*

*دیکھ نیزہ پر میرے سر کو تجھے یاد رہے!*
*سر کٹاکر بھی نہیں جھکتے پیمبر والے!*

*اگر بھارت اور ساری دنیا میں امن و شانتی چاہئے، آتنکواد سے چھٹکارا چاہئے، نیاے چاہئے، اپراد مکت دھرتی چاہئے، تو دنیا کی کوئی فوج، کوئی عدالت اتنا کام نہیں کر سکتی جتنا کام مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شریعت کر سکتی ہے!*

*جو لوگ کہتے ہیں کہ شریعت کے قانون میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے! مرد و عورت سب کو ان کا حق نہیں دیا جا رہا ہے، ان کو وہ سانحہ یاد کرنا چاہئے کہ دلی کی سڑکوں پر جو جرم ہوا پورے بھارت کی نگاہیں جھک گئیں!*

*بھارت سرکار کو اس وقت یاد آیا کہ سخت سے سخت قانون بنانا پڑےگا کہ جو سانحہ دلی کی چلتی ہوی بس میں ایک عورت کے ساتھ ہوا ویسا سانحہ کسی اور کے ساتھ نہ ہو، مگر دہلی سے لے کر یوپی تک اور گجرات تک اس واقعہ کے بعد ہزاروں واقعات ہوے!!!*

*مسئلہ کا حل نہیں ہوا، اپراد پر انکش نہیں لگا، جرم ختم نہیں ہوا، جب کہ اس وقت بھارت سرکار نے ریٹائرڈ جج ورما کی ادھیکشا میں ایک سمیتی بنائی تھی کہ وہ سمیتی طے کرے گی کہ ایسے اپراد پر کیا قانون بنایا جائے۔ اسے ہزار مشورے پہونچے، حل نہیں نکل رہا تھا، اسی سمے مسلمانوں نے نہیں کچھ غیر مسلموں نے یہ سجھائو دیا کہ ورما صاحب اگر آپ کو اپراد سے نجات دلانا ہے تو وہی قانون لائیے جو 1400سال پہلے محمد رسول اللہ نے قانون لا یا تھا!*

*جس نکاح کے طریقے کو رسول نے جائز کہہ دیا، جس طلاق کا طریقہ رسول نے بتادیا ............ ہم مرتے دم تک اس راستے سے ہٹیں گے نہیں!*

*ہم جانتے ہیں کہ ہمارا سمیدھان عوام کے فائدے کے لیے ہے، مگر دوستو ایک وہ قانون ہے جو اللّہ کے رسول لیکے آئے، کبھی کوئی کمی اس میں ہو ہی نہیں سکتی، ضرورت ہے اس کو سمجھنے کی!!!*

*آج اگر یہ کہا جائے کہ اسلام میں عورتوں کے حقوق کی بات نہیں ہوتی، عورتوں کے حقوق کو دبایا جاتا ہے، یہ ہماری اپیل ہے کہ ہماری اسلامی خواتین وہ اسلامی حدود کا لحاظ کرتے ہوے اپنی آواز پارلیمینٹ تک پہونچائیں، اور یہ بتادیں کہ ہمارے لیے ہمارے اسلام نے جو قانون دیا ہے ہم اسی کو تسلیم کرینگے!!! یہ مہم پورے بھارت میں چل رہی ہے!!!*

*یہ اسلام ہی کا قانون ہے کہ جو باپ اپنی بیٹی کو زندہ در گور کردیتا تھا، جس قوم میں ظلم و بربریت کی انتہا نہ تھی، ایسے جرائم پر روک لگانے والا قانون اسلام ہی کا قانون ہے!*

*جنگ کربلا کا مقصد بھی یہی تھا کہ قانون شریعت کی حفاظت ہو!!!*

*ہم سب کو چاہئے کہ ہم قانون شریعت کی حفاظت کریں اور اس پر عمل کریں!*

*خطاب کے اختتام پر سجادہ نشین آستانہ محدث اعظم ہند نے جلسہ میں موجود تمام مرد وخواتین سے ہاتھ اٹھوا کر یہ پوچھا کہ:*

*ہمیں بھارت میں شریعت کا تحفظ کرنا چاہیے کہ نہیں؟؟؟ ہمیں اپنے نکاح و طلاق کے مسائل شریعت کی روشنی میں حل کرنا چاہئے کہ نہیں؟؟؟*

*تو سبھوں نے اپنا ہاتھ اٹھا کر ایک آواز میں جواب دیا کہ ہم اپنے شرعی قانون کو ہی اپنائیں گے۔*

*فاضل بغداد نے مزید ارشاد فرمایا کہ:*

*ہر ہندوستانی مسلمانوں کی ایک ہی آواز ہے کہ ہمیں اسلامی قانون پیارا ہے، شریعت میں کسی حکومت کی مداخلت ہمیں منظور نہیں!*

*بھارت سرکار دوارا دائر کیے گئے طلاق ثلاثہ کے خلاف حلف نامے کی ہم پر زور مذمت کرتے ہیں!!!*

*اجلاس کی سرپرستی حضور شیخ الاسلام سید محمد مدنی اشرفی جیلانی کچهوچهوی مدظله العالی بنفس نفیس فرما رہے تھے، خطیب اعظم ہند غازی ملت حضرت علامہ مولانا سید ہاشمی میاں اشرفی جیلانی مدظله العالی، غازی دوراں خطیب اہل سنت حضرت علامہ مولانا سید قاسم اشرف اشرفی جیلانی قبلہ، جانشین شیخ الاسلام حضرت علامہ مولانا سید حمزہ اشرف اشرفی جیلانی قبلہ، حضرت علامہ مولانا سید شبلی اشرف اشرفی جیلانی قبلہ، شہزادہ غازی ملت حضرت سید سبحانی اشرف اشرفی جیلانی قبلہ، حضرت علامہ مولانا سید طلحہ اشرف اشرفی جیلانی قبلہ، شہزادہ غازی ملت حضرت سید صمدانی اشرف اشرفی جیلانی قبلہ اور دیگر کئی مشایخ سلسلہ اشرفیہ بهی شریک اجلاس تهے*

*رپورٹ و پیشکش:*
*مولانا نعیم الدین اشرفی،*
*مدنی فاؤنڈیشن، ہبلی*

*ترسیل کار:*
*اشرفیہ اسلامک فاؤنڈیشن، حیدرآباد دکن*

Wednesday, 12 October 2016

*داتا دربار کو غسل دینے کی روح پرورتقریب*



داتا گنج بخش کے نو سو تہترویں سالانہ عرس پر مزار مبارک کو پچاس من سے زائد عرق گلاب سے غسل دے دیا گیا،اس موقع پر معروف ثناء خوانوں نے بارگاہِ رسالت میں گلہائےعقید ت پیش کیا۔حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے دربار کو غسل دینے کی تقریب داتا دربار کمپلیکس میں ہوئی اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف، وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار،صوبائی وزراء سمیت ہزاروں عقیدت مندوں کی کثیر تعداد شریک ہوئی، تلاوت قرآن پاک کی سعادت قاری رفع الدین سیالوی جبکہ معروف نعت خواں مرغوب احمد ہمدانی نے نعت رسول مقبول پیش کی۔وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف، وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار سمیت دیگر نے مزار شریف کو غسل دیا اور مزار پر چادریں چڑھائیں غسل کی تقریب کے بعد ملک کی ترقی و خوشحالی اور امن و امان کے لئے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔تقریب کے بعد میڈ یا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ اسلام پیار،محبت اور بھائی چارے کا دین ہے حضرت داتاگنج بخش علی ہجویری نے امن کاپیغام دیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ منفی قوتیں ملک کی ترقی نہیں چاہتیں ہم ترقی کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دورکردیں گے سب کو ملک کی خدمت عبادت سمجھ کر کرنی چاہیے۔

*صدر ترکی کے امریکہ کے خلاف سخت بیانات*



صدر رجب طیب ایردوان کا کہنا ہے کہ اب کے بعد ہم بھی دہشت گردوں کی واپسی کے لیے امریکہ جیسا موقف اپنائیں گے
12.10.2016 ~ 12.10.2016

صدر رجب طیب ایردوان نے   "دہشت گرد تنظیم   PKK  کے سرغنہ    کو  حوالےکردیا اور ایک دوسری   دہشت گرد تنظیم فیتو  کے  سرغنہ کو   لے  لیا" کہتے ہوئے    امریکہ کے خلاف سخت رد عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔

انقرہ میں  قومی ثقافت و کنونشن سنٹر   میں  جج اور  جمہوری اٹارنی امیدواروں کی  قرع اندازی کی تقریب سے  خطاب کرنے والے   صدر ایردوان  کا کہنا ہے کہ اگر  فیتو کے سرغنہ  فتح اللہ گولن  کی ترکی واپسی کے  عمل میں  طول  آیا تو   اس وقت  ہمارے پاس کہنے کو بہت کچھ ہو گا۔

امریکی   اٹارنیوں کو   دہشت  گرد تنظیم فیتو کی وساطت سے  ترکی لاتے ہوئے ان کی  ہر طرح سے آؤ بھگت کیے  جانے کی یاد دہانی کرانے والے  جناب ایردوان نے  بتایا کہ  ان اٹارنیوں نے امریکہ  واپسی پر  جمہوریہ ترکی کے ایک  شہری کو   اس ملک  میں داخلے کے وقت  گرفتار کر لیا جو کہ  6 ماہ سے جیل میں بند ہے اور    کے خلاف عدالتی      بھی    شروع نہیں  کی گئی۔

صدر نے کہا کہ " آپ لوگ کہتے ہو کہ ہم  غیر جانبدار اور  خود مختار  ہیں    تو پھر گولن کی کیونکر جانبداری کر رہے ہو۔  ہم آپ سے کہیں زیادہ جانبدار  ہیں کیونکہ ہمارا عدالتی نظام   خود  مختار ہے۔ "

ترکی سے     دہشت گردوں کو   ان کی درخواست پر    ہمیشہ   ان کے     حوالے کیا گیا ہے لیکن جب ہماری باری آئی ہے تو  یہ     گولن کی  حوالگی کو   مسترد کر تے ہوئے  طرح طرح کے بہانے بنا  رہے ہیں۔    اب کے بعد ہم بھی انہی کے لائحہ عمل کو اپنائیں  گے۔  ایک  جانب ہم حکمت عملی  حصہ دار ہیں   تو دوسری  جانب       ہم سے    اجنبیوں  جیسا  رویہ  رکھا جا رہا ہے، یہ امر ناقابلِ قبول ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ   گولن  سترہ برسوں سے  امریکہ  میں مقیم ہے، اگر ایک ملک  نے تمھارے ملک میں مقیم   شخص کو دہشت گرد قرار دیا ہے تو پھر اس  شخص کو  اس ملک کے حوالے کرو گے۔


*امارات کا دبئی میں دنیا کی نئی بلند ترین عمارت بنانے کا اعلان*

’برج خور دبئی‘ برج الخلیفہ سے بھی بلند اور جدید سہولیات سے آراستہ ہوگا

منگل 10 محرم 1438هـ - 11 اکتوبر 2016م

مختصر لنک
دبئی ۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ
متحدہ عرب امارات کے بین الاقوامی سیاحتی وتجارتی مرکز دبئی پہلے 828 میٹر بلند ’برج الخلیفہ‘ جیسی دنیا کی بلند ترین عمارت کا عالمی ریکارڈ رکھتا ہے مگر دبئی نے برج الخلیفہ سے بھی بلند تر عمارت کی تعمیر کا فیصلہ کر کے فلک بوس عمارتوں کی تعمیر میں ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق برج الخلیفہ سے بلند تر عمارت کے لیے ’برج خور دبئی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ دبئی کے گورنر الشیخ محمد بن راشد آل مکتوم نے نئے بلند ترین برج کا افتتاح کیا ہے جسے سنہ 2020ء میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔
’برج خور دبئی‘ اب تک کی دنیا کی بلند ترین عمارت برج الخلیفہ سے کئی حوالوں سے مختلف ہو گا۔ بلندی میں برج الخلیفہ سے اونچا ہونے کے ساتھ اس میں کئی لگژری اپارٹمنٹس، ایک بڑا لگژری کانفرنس ہال، ایک بڑا ہوٹل، پارکنگ، باغیچوں اور جدید ترین سہولیات سے آراستہ حوض اس کی پہچان ہوں گے۔
نئے برج کی افتتاح تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حاکم دبئی الشیخ محمد بن راشد آل مکتوم نے کہا کہ نئی بلند ترین عمارت کی تعمیر کا مقصد مستقبل میں مختلف شعبوں میں زیادہ جدت لانا اور معاصر سہولیات سےآراستہ ماحول فراہم کرنا ہے۔
خیال رہے کہ رواں سال اپریل میں ’اعمار پراپرٹیز‘ نامی تعمیراتی فرم نے انکشاف کیا تھا کہ دبئی میں ایک نئی بلند ترین عمارت کی تعمیر کا کام جلد شروع ہوگا جس پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم خرچ کی جائے گی۔ اس کا افتتاح سنہ 2020ء میں ایکسپو نمائش کے موقع پر کیا جائے گا۔ توقع ہے کہ لاکھوں لوگ اس کی سیر میں دلچسپی لیں گے۔
خیال رہے کہ آٹھ سو اٹھائیس میٹر بلند برج الخلیفہ کی تعمیر جنوری 2010ء میں مکمل ہوئی تھی جس ڈیڈھ ارب ڈالر خرچ ہوئے تھے۔

Monday, 10 October 2016

مزید مصنوعی خانہ کعبہ تعمیر کرنیکا اعلان، اہم وہابی تنظیم کا انکشاف

*مزید مصنوعی خانہ کعبہ تعمیر کرنیکا اعلان، اہم وہابی تنظیم کا انکشاف*


اکتوبر 10, 2016  


   
نیروبی، کینیا (قدرت روزنامہ10اکتوبر2016) صومالیہ کے شہر خووان میں مصنوعی خانہ کعبہ بنانے حج اور عمرہ مناسک ادا کروانے کے بعد لوگوں کو حاجی قرار دینے والی وہابی تنظیم الشباب کے حوالے سے مزید معلومات ملی ہیں۔ روزنامہ خبریں کے رپورٹر امیر حمزہ کھوکھر کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ الشباب وہابی تنظیم 2006 سے قائم ہے اس کے لیڈر کا نام احمد عمر ابو عبیدہ ہے۔وہابی تنظیم کا پورا نام حرکة الشباب المجاہدین ہے۔ ہیڈ کوارٹر کسمایو میں جو صومالیہ کے لوئر جوبا علاقے میں واقع تھا۔ 2012میں مغربی صومالیہ کے شہر ”براوے“ منتقل ہو گیا۔ جنوبی صومالیہ کا سوفیصد علاقہ ان کے قبضہ میں جس کے ساتھ کینیا کی سرحد لگتی ہے۔ 2012ءمیں الشباب کا باقاعدہ الحاق القاعدہ سے ہوگیا۔ شروع میں یہ وہابی تنظیم ”اسلامک کورٹس یونین“ کا حصہ تھی اس یونین نے صومالیہ کی حکومت کے خلاف الگ وہابی شریعت عدالتیں بنا رکھی تھیں لیکن بعد میں اسلامک یونین کی غالب تعداد الشباب قائم کر لی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ اگرچہ صومالیہ میں ایک مرکزی حکومت قائم ہے لیکن صدر حسن شیخ محمد کی حیثیت اتنی ہے کہ صومالیہ کے دس سے پندرہ فیصد علاقوں پر ہی اس کا عمل دخل ہے اور وہابی الشباب کے غلبے کی وجہ سے صدر بھی ان کی بات ماننے پر مجبور ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں نے الشباب کو انتہا پسند جہادی گروپ قرار دیا ہے۔ القاعدہ کے الشباب سے تعلقات القاعدہ کے علاوہ انتہا پسند تنظیم بوکو حرام سے بھی بتائے جاتے ہیں۔ صومالیہ کی واحد بندرگاہ علاقے میں سب سے بڑی سمجھی جاتی ہے جہاں بے شمار جہاز آتے ہیں۔ الشباب کی مالی حالت انتہائی مضبوط ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ان کے بحری قزاقوں یعنی سمندر میں بحری جہازوں کو لوٹنے والے ڈاکوﺅں سے گہرے تعلقات ہیں اور اس لوٹ مار میں انہیں باقاعدہ حصہ ملتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مصنوعی خانہ کعبہ کی تعمیر اور جعلی حج اور عمرے کو صومالیہ کے عام سنی لوگ پسند نہیں کرتے اور اسے کفر سے تعبیر کرتے ہیں تین چار مرتبہ اس عمارت پر منظم حملہ ہو چکا ہے ہر بار حملہ آور مصنوعی کعبہ کے ساتھ جعلی حطیم اور جعلی مقام ابراہیم کو توڑ پھوڑ دیتے ہیں لیکن وہابی الشباب کے لوگوں کے پاس بے شمار اسلحہ ہے لہٰذا وہ ہر بار سنی حملہ آوروں کو اسلحہ کے زور پر علاقے سے نکال دیتے ہیں اور مصنوعی کعبہ جعلی حلیم اور جعلی مقام ابراہیم کی دوبارہ مرمت کر لی جاتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ صومالیہ میں مسلسل بغاوتوں اور دہشتگرد تنظیم الشباب کے حملے کی وجہ سے آبادی کا بہت مو ¿ثر حصہ بالخصوص الشباب کے مخالفین دوسرے پڑوسی ممالک کے علاوہ کینیا میں پناہ لے چکے ہیں جو پر امن ملک ہے اور جہاں عیسائی حکمران ہیں جو خود کو مغربی تہذیب اور ممالک سے منسلک تصور کرتے ہیں۔ کینیا میں مالدار لوگ تجارت کرتے ہیں، عمارتیں تعمیر کرتے ہیں جنہیں کرائے پر دیا جاتا ہے جبکہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ امن و امان کی بہتر صورتحال کے پیش نظر ملازمتیںکرتے ہیں۔ کینیا کا شاید ہی کوئی ایسا دفتر یا کارخانہ ہو جہاں صومالیہ سے آئے مہاجرین کام نہ کرتے ہوں۔ خود میرے پاس کئی ملازم صومالیہ سے بھاگ کر آئے ہیں اور بہت سے فلیٹوں میں بحیثیت کرائے دار رہتے ہیں۔ الشباب کی تنظیم مصنوعی خانہ کعبہ اور دیگر تعمیرات کی دن رات حفاظت کرتی ہے۔ اس کے باوجود آج تک مصنوعی کعبہ پر پانچ بار سنگین حملے ہو چکے ہیں۔

حج کے تمام مناسک کی نگرانی. وہابی الشباب کے مسلح پہرے دار کرتے ہیں جو باقاعدہ یونیفارم میں ہوتے ہیں جبکہ الشباب کے عام کارکن اور فوجی یونیفارم نہیں پہنتے۔ صومالیہ کے عوام سے ان کی شناخت کرنا مشکل ہے اور یہ لوگ ہر عمارت دفتر اور کارخانے میں موجود ہیں اور صرف اپنے اسلحے سے پہچانے جاتے ہیں۔ صومالیہ میں واقع اس مصنوعی کعبہ اور متعلقہ عمارات کے علاوہ یہ خبر بھی عام ہے کہ بعض دوسرے افریقی ممالک میں بھی اسی طرز کی عمارتیں بنا کر مصنوعی حج اور مصنوعی عمرے کا اہتمام کیا جائے گا۔ ترکی کے فتح اللہ گولن نے جس طرح دنیا کے کئی ممالک میں سکول اور ہسپتال تعمیر کروائے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ صومالیہ میں بھی سکولوں کی عمارتیں اور دو بڑے ہسپتالوں کی عمارت تعمیر کی لیکن الشباب کے انتہا پسندوں نے سکول بند کر دئیے اور عمارتوں پر قبضہ کر لیا۔ ہسپتالوں کی عمارتوں میں اپنے اسلحہ خانے بنا لیے۔ کینیا کے عام لوگ وہابی الشباب سے سخت نفرت کرتے ہیں کیونکہ وقتاً فوقتاً ان کے دہشتگرد کینیا میں کارروائیاں کر کے امن کو تہہ و بالا کر دیتے ہیں۔


Sunday, 9 October 2016

🌴 *عاشقان اہل بیت سبیل امام حسین،نذرونیاز ،تلاوت قرآن اور فاتحہ خوانی کا اہتمام کریں*

🌴 *صبح ِقیامت تک اسلامی اصولوں کی پامالی کی گرداب میں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعلیمات نمونہ عمل اور حوصلوں کی بلندی کا سبب ہے۔*


🌴 *سنّی دعوت اسلامی کے اٹھارہویں دس روزہ ذکر تاجدارکربلا میں مولاناسیدمحمد امین القادری صاحب کا انقلاب آفریں خطاب*


9اکتوبربروز اتوار2016ء
(میمن رضوان نوری):

نواسہ رسول سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ ایک تحریک ،انقلاب اور کلچر کانام ہے۔ باطل کے خلاف سینہ سپر ہوجانا امام حسین اعظم رضی اللہ عنہ کا شیوہ ہے۔آپ اسلام کے محافظ و پاسبان اور شریعت اسلامیہ کے پاسدار تھے ۔جب جب اہل اقتدار بگڑیں گے صبح قیامت تک حسین اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت دیوانگان عشق محمد کی رہنمائی اور رہبری کرے گی۔ آپ نے یزید کی اطاعت و بیعت سے صاف انکار کردیا اور اس کی آمریت کو للکارا ۔ اپنے بہتر(72)عزیز و اقارب کے ساتھ قربانی دے دی مگر شریعت سے انحراف گوارہ نہ کیا ۔حالات کی ستم ظریفی آپ کے پائے نا ز کو متزلزل نہ کرسکی ،ظلم و جور کی آندھیاں پاش پاش ہو گئیں ،مگر عزم حسینی کا کوہِ محکم مستقیم رہا ۔تا قیام قیامت باطل کی معرکہ آرائی ،اسلامی اصولوں کی پامالی کی گرداب میں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعلیمات نمونہ عمل ہے اور حوصلوں کی بلندی کا سبب ،جب بھی باطل و طاغوتی قوتیں افکارِ اسلامی پر حملہ آور ہوں گی سیدنا امام ِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت خونِ تازہ فراہم کرکے ہماری رہنمائی کرے گی ۔ ان فکرانگیز جملوںکا اظہار ۹اکتوبر بروز اتوار کوسواداعظم اہلسنّت وجماعت کی عالمگیر تحریک سنّی دعوت اسلامی کے زیر اہتمام نورباغ چوک ہزارکھولی (مالیگاﺅں) میں منعقدہ اجتماع بنام *”ذکر تاجدارِکربلا“*میں مولانا الحاج سیدمحمد امین القادری صاحب (نگراں سنّی دعوت اسلامی)نے کیا۔
 مولاناموصو ف نے کہاکہ حضورﷺنے فرمایا:” اے فاطمہ!حسین کو رُلایا نہ کرو،حسین کے رونے سے میرا دل دکھتاہے۔“،”امام حسن اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔“(ترمذی) اور فرمایا: ”حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔“ (ترمذی شریف)ایک بچہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے قدموں کی خاک اپنی پیشانی پر ملتاہے،اس بچے کے متعلق رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ قیامت کے دن میں اس بچے اور اس کے والدین کی شفاعت کروں گا۔مولاناموصوف نے فرمایاکہ ذکرِ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کرنااور سن کررونا کوئی بدعت نہیں بلکہ حضور ﷺ، سیدناجبرئیل علیہ السلام اور صحابہ کرام کی سنت ہے۔اس پر مولاناموصوف نے متعدد روایتوں کا ذکرفرمایاجس میں سیدالشہداکی شہادت کا ذکر موجود ہے اورجسے سن کر رسول ،خانوادہ ¿ رسول اور صحابہ کرام نے آنسو بہائے ہیں۔
 مولاناموصوف نے فرمایاکہ اصحاب کہف کا نام گھر میں لکھنے سے چوری نہیں ہوتی اور آگ نہیں لگتی،اسی طرح پنج تن پاک کا نام گھر میں لکھنے سے ڈکیتی نہیں ہوگی اور کسی قسم کا نقصان نہیں ہوگا،اس لیے کہ اصحاب کہف نے صرف اپنا ایمان بچایاتھاجبکہ خانوادہ نبوت نے اپنا سب کچھ قربان کرکے صبح قیامت تک کے لیے اسلام کو بچایاہے۔رسول اکرم ﷺنے فرمایاکہ جب بچپن میں امام حسین روتے تو سدرہ کے مکیں سیدناجبرئیل علیہ السلام جھولاجھلاتے،حسنین کریمین کی کشتی کا اہتمام کرتے اور ان کی خوشخطی کے فیصلے کے لیے جنت سے پھل لاتے ہیں۔یوم عاشورہ کو اہل بیت اطہار کے نام سے سبیل ،نذرونیازاور تلاوت قرآن وفاتحہ خوانی کے حوالے سے مولاناموصوف نے فرمایاکہ فتاویٰ عزیزیہ میںعلامہ شاہ عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ دسویں محرم کو میں مدرسے کی چھٹی کرتاہوں اس لیے کہ اس دن نواسہ ¿ رسول نے اسلام کی خاطر اپنا گھربار قربان کیاتھا،نذرونیاز وفاتحہ کااہتمام کرتاہوں اور کھڑے ہوکر سلام پڑھتاہوں۔اجتماع براہ راست یوٹیوب اور اینڈرائیڈ موبائل پرایس ڈی آئی اپلی کیشن پر نشر کیاگیا، اجتماع میںعلما،حفاظ،ائمہ مساجد اور عمائدین شہر کے ساتھ ہزاروں عاشقان اہل بیت نے شرکت کیں۔صلوٰة وسلام ودعاپر اجتماع کا اختتام ہوا۔


🌴 *اٹھارہ سالوں سے اہل بیت کے نغمے الاپنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان کے بچے بچے کے دل میں آلِ نبی کی محبت پیداہوجائے*

🌴 *نبی اکرمﷺ کی آل سے محبت کرو،ان کی اولاد سے شفقت کرو اورانھیں مصیبت میں دیکھو تو فوراً مددکرو*
🌴 *سنّی دعوت اسلامی کے اٹھارہویں دس روزہ اجلاس میں مولاناسید محمد امین القادری کا خطاب*
 07/اکتوبربروز جمعہ2016ء(اختر رضا قادری):اہل بیت سے مراد اہل عبا یعنی حضورﷺ،حضرت علی،حضرت فاطمہ، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہم ہیں جنہیں پنجتن پاک بھی کہاجاتاہے۔اللہ تبارک تعالیٰ نے پنج تن پاک کو چھوٹے بڑے تمام گناہوں سے پاک فرمایاہے۔اہل بیت کرام کی تعریف وتوصیف اور ان کی مدح وستائش میں قرآن مقدس میں متعدد آیات اور کثیر احادیث وارد ہیں۔ہر سانحہ کا ذکر واقعہ رونماہونے کے بعد ہوتا ہے مگر شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کی یہ انفرادیت ہے کہ اس کا ذکر واقعہ کربلاکے وقوع پذیر ہونے سے بہت پہلے بارہاہوتارہاہے۔ ان کلمات کا اظہار سواداعظم اہلسنّت وجماعت کی عالمگیر تحریک سنّی دعوت اسلامی کے زیر اہتمام مالیگاﺅں میں اٹھارہویں دس روزہ اجلاس بنام *”ذکر تاجدار کربلا“* کی پانچویں نشست میں آل رسول حضرت مولانا الحاج سیدمحمد امین القادری صاحب (نگراں سنّی دعوت اسلامی)نے 07/اکتوبر بروز جمعہ کیا۔مولانا موصوف نے فرمایاکہ اہل بیت اطہار کے ذکر کی محفل کا انعقاد کرنا اور اہتمام کرنا خود حضور ﷺ کی سنت ہے اس لیے کہ حجة الوداع کے موقع پر آقاعلیہ السلام نے صحابہ کرام کو جمع فرماکر ارشاد فرمایاکہ میں تم میں دو نفیس اور گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہاہوں ان میں پہلی چیز اللہ کی کتاب اور دوسری میری اہل بیت۔میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ کی یاددلاتاہوں اور اس سے ڈراتا ہوں ۔اہل بیت کی محبت کے صدقے اللہ پاک نے لوگوں پر جہنم کی آگ حرام فرمادی ہے۔حضور ﷺنے فرمایاکہ جو میری اہل بیت کی محبت میں انتقال کرے گا اللہ تعالیٰ اسے شہادت کا مرتبہ عطافرمائے گا۔جب تک روئے زمین پر اولاد رسول کا وجود رہے گا اس وقت تک قیامت نہیں آسکتی معلوم ہوا کہ خانوادہ رسالت کی موجودگی دنیاوالوں کے لیے امان ہے۔ حضورﷺنے فرمایاکہ اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاﺅ،اول نبی کی محبت،دوم آل نبی کی محبت اور سوم قرآن کریم۔
 مولانا سیدمحمد امین القادری صاحب نے قرآن ،احادیث اور سلف وصالحین کے معتبرومستند اقوال کے ذریعے سے نبی اکرمﷺکی آل کے فضائل ومناقب پر پُراثرخطاب فرمایا۔دوران خطاب آپ نے فرمایاکہ اٹھارہ سالوں سے اہل بیت کے نغمے الاپنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان کے بچے بچے کے دل میں نبی کی آل کی محبت پیداہوجائے اس لیے کہ حضور ﷺنے فرمایا جس نے اہل بیت کی تعظیم کاحق اداکیا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔(ترمذی)فضائل علی پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایاکہ ہر باپ اپنی بیٹی کے لیے بڑاگھر تلاش کرتاہے ،حضورﷺ نے اپنی دختر ناز سیدہ فاطمة الزھرارضی اللہ عنہا کے لیے اسلام کی ایسی عظیم ہستی کا انتخاب فرمایاجس کی ولادت ہی اللہ کے گھر میں ہوئی،اللہ سے بڑھ کر کس کاگھر ہوسکتاہے ؟ساتھ میں یہ بھی یاد رہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوسیدہ کی شکل میں گھر بھی ایسا ملاجہاںبلبل سدرہ حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی بغیر اجازت داخل نہیں ہوتے۔پہلے پروگرام کے بعد مسجد یارسول اللہ (مرکز سنّی دعوت اسلامی)پر بھی اجتماع منعقد ہواجہاں آپ نے پیغام دیتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ نبی اکرمﷺ کی آل سے محبت کرو،ان کی تعظیم کرو،قدر کا حق اداکرو،آل رسول کی اولادوں سے پیار کرو،ان کے ساتھ شفقت سے پیش آﺅ،کسی سیدزادے کو مصیبت میں دیکھو تو فوراً اس کی مددکرو اور کسی نبی زادے سے چپل پہن کر مصافحہ نہ کرو۔دونوں اجتماع یوٹیوب پر براہ راست نشرکیاگیا۔اسٹیج پر علما،حفاظ،ائمہ کرام اور عمائدین شہر موجود تھے اور ہزاروں کی تعداد میںعاشقان اہل بیت نے شرکت کیں۔صلوٰة وسلام اور دعاپر اجتماع کا اختتام عمل میں آیا۔

Saturday, 8 October 2016

*ترکی کی دہشت گردوں کے خلاف کازروائیاں جاری رہیں گی، وزیر اعظم ترکی*



طرح طرح کے  بیانات  جاری کرنے والوں کا مؤقف  ہمارے لیے وقعت نہیں رکھتا، اصل  چیز ترکی  میں امن و امان ، اتحاد ویکجہتی   ہے : بن علی یلدرم
08.10.2016 ~ 08.10.2016

وزیر اعظم  بن علی یلدرم  کا کہنا ہے کہ  فرات ڈھال آپریشن      سمیت تمام تر  فوجی کاروائیوں کا مقصد  دہشت   گردی کی بلا سے   نجات پانا ہے۔

اندرون ملک  PKK  اور بیرون ملک  داعش، وائے پی جی،  پی وائے ڈیء   دہشت گرد  عناصر کے      خلاف     ترکی  کے پر عزم طریقے سے اپنی  جنگ کو جاری رکھنے کی وضاحت کرنے والے جناب یلدرم نے بتایا کہ    فرات ڈھال آپریشن   پر عمل  در آمد جاری رہے گا۔

اس حوالے سے  طرح طرح کے  بیانات  جاری کرنے والوں کا مؤقف  ہمارے لیے وقعت نہیں رکھتا، اصل  چیز ترکی  میں امن و امان ، اتحاد ویکجہتی   ہے۔

انہوں نے  استنبول میں ایک   فوجی     لاجسٹک بحری جہاز کو سمندر میں اتارنے کی تقریب   میں  شرکت کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ   بغاوت کی کوشش کے خلاف ترک قوم نے عقل سلیم سے کام   لیا اور اس کوشش  کو ناکام بنا ڈالا۔


Friday, 7 October 2016

*पाकिस्तान में 'देवबंदी तबलीगी आतंकीयो' पर क्रैकडाउन होगा?*


2 घंटे पहले

पाकिस्तान में सक्रिय देवबंदी तबलीगी आतंकी हाफ़िज़ सईद
पाकिस्तान में इस बात पर दबाव बढ़ता जा रहा है कि वहां सक्रिय देवबंदी तबलीगी जिहादियों, चरमपंथियों और उनकी संस्थाओं पर रोक लगाई जाए. पाकिस्तान के कई सांसदों ने एकजुट होकर कहा है कि देवबंदी हाफ़िज़ सईद और देवबंदी मौलाना अज़हर मसूद जैसे लोगों का समर्थन बंद हो और उनकी हरकतों पर पाबंदी लगाई जाए.
भारत का कहना है कि देवबंदी हाफिज सईद और देवबंदी मौलाना अज़हर मसूद जैसे ''नॉन-स्टेट एक्टर्स'' की संस्थाओं ने भारत और भारत प्रशासित कश्मीर में कई चरमपंथी हमले किए हैं जिन में इस साल हुए पठानकोट हमले और 2008 में मुम्बई में हुए हमले शामिल हैं.

Thursday, 6 October 2016

*Biography of shah Syed Turab ul haq Qadri Alyhi rehma* 


*BIRTH:*

Huzoor Shah Syed Turab ul Haq Qadri was was born on Friday 27 Ramadan 1363 H/ 15th of September 1944, in the city of Hyderabad, India and his family moved to Pakistan following the Partition of India.



*HIS POSITION IN THE SILSILA:*

Peer e Tareeqat Rahbar e Shariat Syed Shah Turab ul Haq Qadri (Damat Barkatuhumul A’aliyah) is the Khalifa of The Reviver of 15th century Huzoor Mufti e Azam e Hind.



*FAMILY HISTORY :*

His father was Syed Shah Hussain Qadri , who belongs to Syed family and his mother belongs to Farooqui family. He migrated to Pakistan in 1951. Shah sahib became mureed of Huzoor Sarkar Mufti Azam Hind, younger son of Sarkar Ala Hazrat by post in the 1962 and himself went to Bareli shareef in the year 1968. During his visit to Barelly shareef he stayed at the place of his highness Huzoor Sarkar Mufti Azam Hind for 13 days.


*WORKS :*

He has served in various capacities in government including the education sector, and in parliament. Shah Sahab is founder of religious schools and organizations, as well as a NGO to help Sunni Muslims. Shah sahib qibla has granted his khilafat to his son Allama Syed Shah Abdul Haq Qadri noori.



*BOOKS :*

Shah Sahib is also an author of many books. Such as

• Zia ul hadees, (ضیاء الحدیث)
• Jamal a Mustafa (جمالِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
• Tassawuf O Tareeqat (تصوف و طریقت)
• Dawat O Tanzeem,
• Falha E Dareen,
• Khwateen Aur Deene Masaill,
• kitab us Salat,
• Masnoon Duain,
• Tafseer A Surah Fateh,
• Islami Aqaid,
• Huzoor ki Bacho Say Muhabat,
• Sana a Sarkar
• Mazarat a Aulia Aur Tawassul .
• Imam Azam,
• Fazail a Sahaba Aur Ahle Bait,
• Tehreek Pakistan May Ulma Ahlesunnat Kakirdar etc.
• Rasool-e-Khuda Ki Namaz
• Haj ka Masnoon Tareeqa

Shah sahib became the disciple or mureed of Huzoor Sarkar Mufti E Azam Hind, younger son of Sarkar Ala Hazrat  in 1962 and visited Bareilly shareef in the year 1968. During his visit to Bareilly Shareef he stayed at the place of his highness Huzoor Sarkar Mufti Azam Hind for 13 days. He has served in various capacities in government including the education sector, and in parliament. Shah Sahab is founder of religious schools and organizations, as well as a NGO to help Sunni Muslims. Shah sahib qibla has granted his khilafat to his son Allama Syed Shah Abdul Haq Qadri Noori.

Wednesday, 5 October 2016

محرم الحرام میں جاہلانہ رسومات حصہ 1 ۔ ۔


محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس کا اسلامی سال محرم الحرام میں حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ، حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ اور ان کے رفقاء کی بے مثال قربانی سے شروع ہوکر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی لازوال قربانی پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ محرم الحرام شروع ہوتے ہی تعزیہ داری، اسٹیل، پیتل اور چاندی سے تیار کردہ مصنوعی ہاتھ، پاؤں، آنکھیں اور بازو تعزیئے پر چڑھانا، نیلے پیلے دھاگے بازو پر باندھنا، بچوں کو امام کا فقیر بنانا، دشمنانِ صحابہ کا دس یا گیارہ دن کالے، ہرے اور سرخ کپڑے پہننا، ماتم کی کیسٹیں بجانا اور شیعوں کی مجالس اور جلوس میں شامل ہونا اور شب عاشورہ کو خوب ڈھول بجاکر اس شب کے تقدس کو پامال کرنا یہ کام عروج پر ہوتے ہیں۔ یہ تمام کام شریعت کی رو سے ناجائز اور گناہ ہیں مگر ہماری عوام ان کاموں میں اپنا وقت ضائع کرتی ہے۔ یاد رکھئے ہم اہلسنت ہیں اور ہمارے رہبر اور پیشوا امام اہلسنت احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ہیں جنہوں نے اپنے ماننے والوں کو ان ناجائز کاموں سے روکنے کا حکم دیا ہے اور اپنی کتابوں میں ان کاموں سے بچنے کی سختی سے تاکید فرمائی ہے، چنانچہ امام اہلسنت مولانا احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کے ارشادات ملاحظہ فرمائیں۔

 ⬅🌹 تعزیہ بنانا کیسا؟

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ بنانا بدعت و ناجائز ہے (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

 ⬅🌹  تعزیہ داری میں تماشا دیکھنا کیسا؟

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ چونکہ تعزیہ بنانا ناجائز ہے، لہذا ناجائز بات کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے (ملفوظات شریف، ص 286)

  ⬅🌹   تعزیہ پر منت ماننا کیسا؟

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ پر منت ماننا باطل اور ناجائز ہے (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

⬅🌹 تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا اور اس کا کھانا کیسا؟

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا ناجائز ہے اور پھر اس چڑھاوے کو کھانا بھی ناجائز ہے۔

(فتاویٰ رضویہ، جلد 21، ص 246، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

 ⬅🌹محرم الحرام میں ناجائز رسومات

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ محرم الحرام کے ابتدائی 10 دنوں میں روٹی نہ پکانا، گھر میں جھاڑو نہ دینا، پرانے کپڑے نہ اتارنا (یعنی صاف ستھرے کپڑے نہ پہننا) سوائے امام حسن و حسین رضی اﷲ عنہما کے کسی اور کی فاتحہ نہ دینا اور مہندی نکالنا، یہ تمام باتیں جہالت پر مبنی ہیں

(فتاویٰ رضویہ جدید، ص 488، جلد 24، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

 ⬅🌹 محرم الحرام میں تین رنگ کے لباس نہ پہنے جائیں

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ محرم الحرام میں (خصوصاً یکم تا دس محرم الحرام) میں تین رنگ کے لباس نہ پہنے جائیں، سبز رنگ کا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ تعزیہ داروں کا طریقہ ہے۔ لال رنگ کا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ اہلبیت سے عداوت رکھنے والوں کا طریقہ ہے اور کالے کپڑے نہ پہنے جائیں کہ یہ رافضیوں کا طریقہ ہے، لہذا مسلمانوںکو اس سے بچنا چاہئے (احکام شریعت)

 ⬅🌹  عاشورہ کا میلہ

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عاشورہ کا میلہ لغو و لہو و ممنوع ہے۔ یونہی تعزیوں کا دفن جس طور پر ہوتاہے، نیت باطلہ پر مبنی اور تعظیم بدعت ہے اور تعزیہ پر جہل و حمق و بے معنیٰ ہے۔

(فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

  ⬅🌹  دشمنانِ صحابہ کی مجالس میں جانا

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ رافضیوں (دشمنانِ صحابہ) کی مجلس میں مسلمانوں کا جانا اور مرثیہ (نوحہ) سننا حرام ہے۔ ان کی نیاز کی چیز نہ لی جائے، ان کی نیاز، نیاز نہیں اور وہ غالباً نجاست سے خالی نہیں ہوتی۔ کم از کم ان کے ناپاک قلتین کا پانی ضرور ہوتا ہے اور وہ حاضری سخت ملعون ہے اور اس میں شرکت موجب لعنت۔ محرم الحرام میں سبز اور سیاہ کپڑے علامتِ سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔ خصوصاً سیاہ (لباس) کا شعار رافضیاں لیام ہے۔ (فتویٰ رضویہ جدید، 756/23، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
🌹صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!🌹صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد 🌹
مــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ

Tuesday, 4 October 2016

*ایک مشہور پاکستانی دیوبندی مفتی کا بھیانک چہرہ*



اکتوبر 3, 2016    خاص تحرير


لاہور۔اكتوبر  2016)بڑے مفتی صاحب کے نام روزانہ ڈھیر سارے خطوط آتے تھے، میری ذمہ داری تھی کہ ان خطوط میں سے اہم خطوط اور استفتائوں کو الگ کروں اور غیر اہم خطوط کی چھانٹی کروں۔۔۔

وہ ایک دبیز لفافہ تھا۔ میں نے اسے کھولا اور سرنامہ دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ کیونکہ یہ ایک تفصیلی خط تھا جو ایک بہت ہی معروف عالم دین کی اہلیہ اور تبلیغی جماعت کے ایک بہت بڑے بزرگ کی دختر کی جانب سے تحریر کیا گیا تھا۔ ۔۔ میں نے اسے پڑھنا شروع کیا تو میرے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگے اور میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی ہونے لگی۔ میرے ہاتھوں میں تھوڑا سا ارتعاش ہونے لگا۔۔۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ میں سوچنے لگا شاید یہ کسی نے بہت ہی بے ہودہ اور ظالمانہ مذاق کیا ہے، شاید ایسا سوچنا میرے اپنے لاشعورکی خواہش تھی، کیونکہ جس معتبر عالم دین اور خطیب و مناظر کے بارے میں دوٹوک انداز میں انکشافات کئے گئے تھے، میرا لاشعوراس سے فرار کی راہ تلاش کررہا تھا، وہ ان باتوں کی تکذیب کا خواہاں تھا۔ ۔۔خط کے آخر میں محترم خاتون نے اپنا فون نمبر بھی دیا ہوا تھا اور مزید تحقیق احوال کیلئے رابطے کی درخواست کی تھی، میں نے خط چپکے سے اپنے جیب میں منتقل کیا اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی ٹھان لی۔۔۔

اگلے دن جمعہ تھا اور میں پوری طرح سے فارغ تھا . میں نے وہ خط نکالا اور دوبارہ پڑھا، پھر ایک بار پڑھا، خط میں حرمت مصاہرت کے حوالہ سے فتویٰ طلب کیا گیا تھا مگر میں مفتی صاحب کے سامنے یہ استفتا رکھنے اور ان کا جواب لینے سے قبل محترم خاتون سے خود مل کر سارا قصہ سننا چاہتا تھا۔ وہ جہاں رہائش پذیر تھی اس کے قریب ہی میرے ایک دوست کا مدرسہ تھا میں نے اپنے دوست کو فون کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنے گھر یا مدرسہ میں پردے کے مناسب ماحول کے انتظام کے ساتھ اس خاتون سے ملاقات کا اہتمام کرالے۔۔۔ دوست نے حامی بھری اور جمعہ کے بعد اس میٹنگ کو فائنل کرنے کی کال دیدی۔۔۔ میں اپنا موبائل پوری طرح چارج کرکے اور اپنی ڈائری لے کر بائیک پر بیٹھا اور اپنے دوست کے گھر پہنچ گیا۔۔۔محترم خاتون پہلے ہی تشریف لاچکی تھیں، بیچ میں ایک پردہ لٹکاکر پردے کا انتظام کرلیا گیا تھا۔۔۔

میں نے پہنچتے ہی سلام کیا اور سلام کے بعد ان کے والد مرحوم کے ساتھ اپنی عقیدت اور ان سے استفادے کا حال بیان کیا اور انہیں تسلی دی کہ وہ پورے بسط اور اطمینان قلب کے ساتھ اپنا مسئلہ میرے سامنے بیان کرسکتی ہیں۔۔۔ کچھ دیر خاموشی چھائی رہی، شاید خاتون اپنا حوصلہ مجتمع کررہی تھیں اور بکھرے خیالات کو کچھ ترتیب دینے کی کوشش کررہی تھیں، مختصر وقفے کے بعد اس نے اپنا گلا کنگھارا اور گویا ہوئیں۔۔۔

میں اپنے والد کی لاڈلی بیٹی تھیں، میرے والد محترم مفتی زین العابدین رحمہ اللہ، زندگی بھر اللہ کے راستے کی طرف لوگوں کو بلاتے رہے، ان کے تبلیغی خطبے آج بھی پوری دنیا میں شوق سے سنے جاتے ہیں۔ میری تعلیم و تربیت میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ۔ جب سن بلوغ کو پہنچی تو انہوں نے میرا نکاح اپنے ہی مدرسے کے ایک مدرس مولاناسید انور علی شاہ کے ساتھ سادگی سے پڑھا دیا۔ ۔۔ وہ ایک جید عالم دین اور اللہ کے ولی تھے، ان کا تعلق بنوں سے تھا اور سادات خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ زندگی کے کتنے برس ہم نے اکھٹے گذارے اور انہوں نے مجھے کبھی کسی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ ہمارا کبھی گھر میں کوئی جھگڑا نہیں ہوا نہ کبھی کسی بات پر کوئی بڑا اختلاف پیدا ہوا۔ ان سے میرے پانچ بچے پیدا ہوئے دو بیٹے اور تین بیٹیاں، بائیس سال حیات مستعار کے گذرے اور پھر اس کے بعد فرشتہ اجل آپہنچا، میرے خاوند کا انتقال ہوگیا، میرے گلستان کو گویا نظر لگ گئی اور بادسموم نے میرا گلشن اجاڑ دیا۔ اگر چہ بھائیوں کی پوری سپورٹ مجھے حاصل تھی اور مجھے دنیاوی اعتبار سے کوئی کمی نہیں تھی، مگر شوہر ایک شجر سایہ دار ہوتا ہے، وہ شجر نہ رہا اور ظالم دھوپ نے میرے گھر کے آنگن میں ہرے بھرے پھول کملادیئے۔۔۔ پھول جیسے بچوں کی یتیمی کا درد کیا ہوتا ہے یہ ایک ماں سے زیادہ کون جان سکتا ہے۔
یہ ایک ماں سے زیادہ کون جان سکتا ہے۔

میں ماں سے زیادہ باپ بن کر اپنے بچوں کی پرورش کررہی تھی، تنگ دستی کوئی نہیں تھی اور اپنے بھائیوں کا بھی بھرپور سپورٹ مجھے حاصل تھا، کہ ایک دن سرگودھا کے ایک مولوی صاحب نکاح کا پیغام لے کر میرے گھر پہنچ گئے۔۔۔ میرے بھائیوں سے ملے اور اپنی جادو بیانی اور مصنوعی اخلاق سے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ مجھے اگر چہ مزید نکاح کی ضرورت نہیں مگر مجھے اسلام کی سنت زندہ کرنی ہے

کیونکہ پنجاب میں آئے روز یہ سنت مرنے لگی ہے اور لوگ بیوگان سے نکاح کو معیوب سمجھتے ہیں ایسے میں اگر میں ایک سنت زندہ کروں گا تو نہ صرف مجھے بلکہ آپ لوگوں کو بھی سو شہیدوں کا اجر ملے گا۔

مولوی صاحب معروف آدمی تھی اور اپنی چرب زبانی قادرالکلامی اور مناظرانہ صلاحیتیوں سے اپنا اچھا خاصہ حلقہ بنا چکے تھے، سینکڑوں لوگ اس کی پرجوش تقریریں سننے آتے تھے اور جلسوں و مناظروں میں انہیں شوق سے بلایا جاتا تھا، بھائیوں نے جواب دیا ہم اپنی بہن کی رائے معلوم کریں گے، میرے پاس آئے اور مولانا کا مدعا بیان کیا کہ مقصود ان کا شادی سے حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ سے نسبت کا حصول بھی ہے، احیا سنت رسول بھی اور یتمیوں کی کفالت کے ثواب کی تحصیل بھی ...مگر عیب اس میں یہ ہے کہ مدرسہ کے نام پر چندہ خوری کے حوالہ سے بری شہرت کا حامل ہے.. مگر میرے کچھ رشتہ دار اس کی حمایت میں آگے بڑھے ..میری ذہن سازی کی .میں انکار نہ کرسکی آخر دلوں کے بھید خدا کے سوا کون جان سکتا ہے، جب میں نے بڑے عالم دین کا ٹائٹل اس کے ساتھ لگا دیکھا تو سوچا شاید خدا کو مجھ پر رحم آگیا ہے اور اب میری زندگی میں روٹھی بہاریں پھر سے لوٹ آئیں گی، میرے بچوں کو دست شفقت میسر آجائے گا اور وہ یتیمی کے درد سے قرار پاجائیں گے .

مجھے نہیں معلوم تھا کہ لباس خضر میں ملبوس میں کتنے بڑے فراڈیئے کے چنگل میں الجھنے والی ہوں اور کیسا ظالم درندہ مجھے اپنے دام فریب میں پھنسانے کیلئے اپنا جال بچھا چکا ہے۔ شومئی قسمت میں نے نکاح کیلئے ہاں کردی، اپریل کی پانچ تاریخ تھی اور سن تھا 2012، جب میں ایک بہروپیئے کے حبالہ عقد میں آگئی۔ ۔۔

میں نے شرط یہ رکھی تھی کہ میں بدستور فیصل آباد میں اپنے ہی گھر میں قیام کروں گی اور اگر سرگودھا گئی بھی تو صرف خیرسگالی اور صلہ رحمی کے طور پر نہ کہ مستقل رہنے کیلئے۔ انہیں کوئی اعتراض نہ تھا، مہینہ میں ایک دو بار آنے، کفالت کی ذمہ داری اٹھانے اور حقوق زوجیت اداکرنے کی اس نے حامی بھری۔ ۔۔

شروع میں شاید مولوی صاحب میرے والد کی نسبت سے اپنے لئے مالی مفادات کے حصول کے خواہاں تھے، میرے والد گرامی کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے متوسلین سے وہ رابطہ واسطہ بنانا چاہتے تھے اور مدرسے کے نام پر موٹا چندہ اس کا مطمع نظر تھا مگر مجھے معلوم نہیں تھا کہ موصوف کی روحانی بیماریاں صرف مال کے لالچ تک محدود نہیں۔ جب میرا نکاح ہورہا تھا، میری بڑی بیٹی کی شادی ہوچکی تھی، دو چھوٹی تھیں، ایک چودہ سال کی دوسری نو سال کی۔ ۔۔۔

اس کی نیت کا فتور مجھ پر اس دن کھلا جب وہ مجھے سرگودھا اپنے گھر مدرسہ اور پہلی بیویوں سے ملانے لے جانے لگا۔۔۔ میرا بیٹا سولہ سترہ سال کا تھا، گاڑی چلا سکتا تھا، ڈرائیونگ سیٹ پر اسے بٹھایا مجھے کہنے لگا آپ آگے بیٹھ جائیں، میں تو اپنی بچیوں کے ساتھ پیچھے بیٹھوں گا، خدا نے مجھے کس نعمت سے نوازا ہے۔ ۔۔۔ میری چھوٹی بیٹی تو سیٹ پر ہی سوگئی تھی،

جب میں نے پیچھے دیکھا تو یہ میری بڑی بیٹی کے ساتھ چپک چپک کر اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کررہا تھا، میں نےدیکھا، میری بیٹی کے چہرے پر اذیت کے آثار تھے اور مولوی صاحب کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ۔ ۔۔میں خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔ ۔۔ گاڑی رکوائی اور بہانہ کرکے انہیں آگے بیٹھنے پر مجبور کیا۔ ۔۔۔اس کے بعد اذیت کا یہ نہ ختم ہونے والا سفر شروع ہوگیا۔
ختم ہونے والا سفر شروع ہوگیا۔

جب بھی گھر آتا حیلے بہانے سے بیٹیوں کے کمرے میں جھانکتا کبھی آئیس کریم کے بہانے کبھی کسی چیز کے بہانے انہیں باہر لے جانے کی کوشش کرتا۔ میں مزاحم ہوتی تو کبھی غصہ کرتا قسمیں کھاتا کہ میں انہیں باپ کا سچا پیار دینے کی کوشش کررہا ہوں اور تم خامخواہ شک کررہی ہو۔ مگر مفتی صاحب آپ کو پتہ ہے اللہ نے عورت کو ایک اضافی حس سے نوازا ہے، وہ مرد کی آنکھوں میں ہوس اور شہوت کی چمک محسوس کرلیتی ہے۔

میں ایک کمزور عورت تھی اور وہ ایک طاقتور بھیڑیا، وہ مجھے اپنی بیوی کی بجائے راستے کی دیوار سمجھنے لگا۔۔۔میرے لئے اس کے ہر انگ سے نفرت کے فوارے پھوٹتے، بات بات پر گالیاں طعنے اور جھڑکیاں اس کا معمول بن گیا۔ ۔۔۔ مگر میں بھی ہار ماننے کیلئے تیار نہیں تھی۔ میں نے فیصلہ کرلیا تھا کچھ بھی ہوجائے اس درندے کو میں اپنی بچی سے کھیلنے نہیں دوں گا۔۔۔ ایک کمزور بے بس اور لاچار ماں بیٹی اور ایک ہوس زدہ بھیڑیئے کے درمیان یہ کھیل روز کا معمول بن گیا۔ ۔۔ یہ حیلوں بہانوں سے میری بچیوں سے پیار کی کوشش کرتا. میں روکتی تو حدیثوں کے حوالے دیتا، بنات رسول کے قصے سناتا،

میں کہتی آپ کیلئے یہ جائز نہیں کہ آپ میری بچیون کا ماتھا چومو، انہیں مس کرو یہ آپ کی بچیاں نہیں ہیں مگر اس کے سر پر تو شیطان سوار رہتا تھا۔ ۔۔صرف اسی پر بس نہیں کرتا تھا، میں نے ایک غریب لڑکی ملازمہ رکھی ہوئی تھی گھر کے کام کاج کیلئے، یہی کوئی دس سال کی، یہ خبیث الفطرت انسان اسے بھی معاف نہیں کرتا تھا، ایک دن میں بچوں سمیت باہر گئی تھی بھائیوں کے گھر واپس آئی تو یہ درندہ اس چھوٹی سی بچی کے ساتھ بھی غلط حرکات کا مرتب ہوچکا تھا،

بچی نےمجھے سارا قصہ سنایا، میرے دل پر آرے چلنے لگے، مگر میں بے بس تھی کس سے اپنا دکھ بیان کرتی، ۔ ۔۔۔یہ کہہ کر محترم خاتون نے اپنا موبائل پردے کی اوٹ سے میری طرف بڑھایا اور کہا یہ لیں آپ خود سن لیں یہ بچی کیا کہہ رہی ہے۔۔۔

میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ خواتین کے سامنے یہ کلپ دیکھوں، سو اپنے دوست کے ساتھ کمرے سے باہر نکل آیا۔ ۔۔وہ بچی کہہ رہی تھی۔ ۔۔بابا جی میرے پاس آیا۔۔۔مجھے گلے لگایا۔ ۔۔میرا ماتھا چوما اس کے بعد میرا ہاتھ پکڑ کر ....................................(وہ جملے ناقابل تحریر ہیں، اس لئے حذف کر دیے گئے، صاحب تحریر سے معذرت . ایڈیٹر ) کھیلو۔۔۔۔۔۔۔ میں یہ کلپ دیکھ کر کانپ کر رہ گیا، ایک اتنا بڑا عالم دین اور ایسی شیطانی حرکتیں۔ ۔۔زمین کیون نہیں پھٹتی اور آسمان کیوں نہیں گرتا۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلی بار جب میں سرگودھا میں اس کے گھر پہنچی تب مجھ پر آہستہ آہستہ اس کے اخلاقی دیوالیہ پن کے اسرار کھلنے لگے، اس نے کہا تم بیٹھو میں تمہارے لئے چائے بنوا کر لاتا ہوں، میں بیٹھی رہی، جب کافی وقت گذرگیا تو میں اٹھی اورکچن چلی گئی، تنگ اور چھوٹا سا کچن تھا مولوی صیب بیج میں کھڑے ہیں اس کے مدرسے کی ایک جوان طالبہ ایک سائیڈ پر برتن دھورہی ہے دوسری چائے بنا رہی ہے اور تیسری سبزی کاٹ رہی ہے، مولانا کبھی ایک سے مذاق کرتے ہیں کبھی دوسری کی چٹکی بھرتے ہیں، میں نے گلا کھنگارا اور واپس کمرے کی طرف مڑی
اور واپس کمرے کی طرف مڑی .

یہ میرے پیچھے چلے آئے، ،، میں نے کہا کیا آپ کو خدا کا خوف نہیں کیا، ،، مدرسے میں لوگوں نے جوان بچیاں اس لئے بیجھی ہیں کہ تم ان سے اپنے گھر کا کام لو اور پھر خود ان کے ساتھ گپ شپ لگاو،،، کیا تمہارے لئے شریعت نے نیا قانون نکالا ہے کیا تم پر ان سے پردہ کرنا واجب نہیں،

وہ بے شرمی سے ہنسنے لگا نہیں نہیں، میں تو ان کے باپ کی طرح ہوں۔ ۔۔مدرسے میں کیا کچھ ہوتا رہا، اگر دنیا کو پتہ چلے واللہ لوگ جاکر اس کا گھر اور مدرسہ دونوں جلادیں، رات کو اس کی بیوی اٹھتی تھی کسی بھی لڑکی کو آواز دیتی، دو تین گھنٹے یہ اسے اپنے خواب گاہ میں لے جاتا اور پھر اس کی بیوی اسے واپس مدرسہ میں چھوڑ آتی، لڑکیوں کو یہ مسئلے بیان کرتا استاد کی عظمت اور اس کی بات ماننے کے فضائل سناتا .. یوں انہیں اپنے شیشے میں اتارتا اور اپنے ہوس کا نشانہ بناتا، کتنی ہی معصوم لڑکیوں کی دامن عصمت اس کے ہاتھوں تار تار ہوئی۔

شریعت وہ مانتا کب تھا، پہلی بیوی شریف عورت ہے اس نے مجھے بتایا جب اس نے یہ دوسری شادی کی جو اس کی دلالی کرتی ہے، اور اسے مدرسہ کی ناظمہ اور معلمہ بنایا ہوا ہے. مجھے اور اسے دو سال تک ایک ہی کمرے میں ایک ہی بیڈ پر سلاتا رہا آخر مجھ سے برداشت نہ ہوا اور طریقے سے اپنا گھر الگ کرلیا، مدرسے اور گھر کے صحن میں دروازہ تھا، دو مدرسے تھے ایک لڑکوں کا ایک لڑکیوں کا، کئی لڑکیوں سے میری بے تکلفی ہوگئی انہوں نے وہ وہ ہوشربا انکشافات کیئے یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے، ایک میری اچھی دوست بن گئی اس نے بتایا جب بھی مولوی صاحب گھر ہوتے ہیں اس کی بیوی ان کیلئے ضرور کوئی نہ کوئی لڑکی مدرسے سے گھر بھیج دیتی ہے .

ایک رات ایک لڑکی کو لے گئے جب وہ واپس آئی رو رہی تھی، گم صم ہوگئی، چند روز بعد مولوی صاحب کی بیوی بیمار تھی اور مدرسے نہیں آسکتی تھی . مولوی صاحب خود اچانک اندر آگئے ادھر ادھر دیکھا اس وقت مدرسے میں بیس کے قریب لڑکیاں موجود تھیں۔ اس نے اسی لڑکی کی طرف اشارہ کیا، وہ چیخنے لگی اور ہم سب ایک دوسرے کےساتھ چپک کر بیٹھ گئی .

اگلی صبح جیسے ہی فجر کی آذان ہوئی اس لڑکی نے برقعہ پہنا اور نہ جانے کہاں غائب ہوگئی اس کے بعد اس کا کچھ پتہ نہیں چلا،لڑکیوں کے مدرسے کا نام اصلاح النسا رکھا تھا مگر یہاں لڑکیوں کی زندگیاں برباد کی جاتی ہیں۔ مردان کا ایک نوجوان یہاں کام کرتا تھا، اسکی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور اپنی بیوی کو اس نے مدرسہ میں داخل کروایا تھا، ان دنوں ہوا یہ کہ مولوی صاحب کا چھوٹا بیٹا انتقال کرگیا ہم سب سرگودھا گئے، بیٹے کا جنازہ گھر میں رکھا ہوا تھا اگلی صبح تدفین تھی، سب اس گھر میں تھے وہ گھر خالی تھا مولوی صاحب دوسرے گھر گئے، ،اپنی بیوی سے کہا وہ مردان والی لڑکی بلالو، وہ لڑکی گئی اس نے بعد میں مجھے قصہ بتایا، کہ جب میں اندر گئی، چارپائی پر بیٹھ گئی مولوی صاحب غسل خانہ کے اندر تھے وہیں سے اپنی بیوی کو آواز دی تم جاو دروازہ بند کردو۔ میرا دل گھبرانے لگا .

مولوی صاحب غسل خانہ سے باہر آئے جیب سے پانچ سو روپے نکال کر مجھے دیئے کہ یہ رکھ لو، میں نے کہا نہیں مجھے نہیں ہے ضرورت، میں نے برقعہ پہنا ہوا تھا مولوی صاحب پیچھے سے آئے اچانک مجھے پکڑا اور میرا نقاب اتار دیا کہنے لگے اپنے پیر اور استاد سے کیا پردہ، میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا میں نے کا بابا جی آپ کیا کررہے ہیں ایسا نہ کریں خدا کیلئے، کہنے لگے فکر نہ کرو بس تھوڑا اداس ہوں تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو میرے ساتھ تھوڑا سا ٹائم گذارو گی تو میری اداسی ختم ہوجائے گی، میں اس کا ارادہ سمجھ گئی، میں نے کہا نہیں آپ مجھے جانے دیں اگر آپ مجھے جانے نہیں دیں گے میں یہ ساری بات کل اپنے خاوند کو بتاوں گی لیکن اگر تم مجھے کچھ نہیں کہو گے تو میں کسی کو بھی نہیں بتاوں گی اور تم میرے ساتھ زبردستی کروگے تو میں ابھی چیخنا شروع کردوں گی۔ ۔۔ وہ تھوڑا سا گھبرایا، اپنی بیوی کو آواز دی کہ اسے لے جاو،

میں مدرسہ پہنچی میرے پاس موبائل تھا میں نے خاوند کو فون کیا اس نے کہا، کیا ہوا ؟ اس ٹائم کیوں فون کررہی ہے؟ میں نے کہا ابھی آجاو مجھے اس جہنم سے نکالو۔ وہ آیا مجھے لے گیا، یہ واقعہ اس نے بعد میں فون پر مجھے بتایا .

سوچئے درندگی کی انتہا نہیں کہ بیٹے کی لاش گھر میں پڑی ہے اور مولوی صاحب عیاشی اور خباثت کے چکروں میں پڑے ہیں۔۔۔قسم باللہ کوئی بھی یقین نہیں کرسکتا مگر جو میں نے دیکھا وہی بیان کیا .

بعد میں مولوی صاحب اس آدمی کے گاوں گئے اس کے پیروں پر اپنی پگڑی رکھ کر معافی مانگی کہ تم یہ بات نہیں پھیلائو، ورنہ مسلک بدنام ہوجائے گا،، مماتیوں کو ہمارے خلاف پروپیگنڈے کا موقع مل جائے گا، غلطی ہر ایک سے ہوسکتی ہے تو مجھ سے بھی غلطی ہوگئی اور میں شیطان کے بہکاوے میں آگیا، اصل میں اس لڑکے نے اسے دھمکی دی تھی کہ میں تمہیں
دھمکی دی تھی کہ میں تمہیں چھوڑنے والا نہیں، یہ خوف مولوی صاحب کو معافی مانگنے پر مجبور کرگیا۔

میں نے سارے حالات کی خبر وفاق المدارس کے ناظم قاری محمد حنیف جالندھری صاحب کو دی تو انہوں نے کہا تم فکر نہ کرو ہم دو طالبات اپنے اس کے مدرسے میں بطور جاسوس داخل کریں گے وہ ہمیں سارے حالات کی خبر دیں گی تب ہم ان کے خلاف کوئی کاروائی کریں گے...اللہ کو علم ہے انہوں نے اس بارے میں کچھ کیا یا نہیں...

تصویریں نکالنے کا اسے بہت شوق تھا، اس کا موبائل لڑکیوں کی تصویریوں سے بھرا رہتا تھا . لڑکیوں کے بے تحاشا نمبر تھے اس کے فون میں، بے شرمی کی انتہا دیکھیں ہم ماں بچوں کے سامنے پرائی لڑکیوں کے نمبر ملا دیتا تھا اور ان سے گپ شپ لڑاتا تھا جب میں اعتراض کرتی تو کہتا پیر اور مرید میں کیا پردہ،

اس کے سارے کرتوتوں میں اس کا شریک اس کا سکریٹری بھی تھا مدرسے کے قریب اس کو گھر لے کر دیا ہوا تھا، کوئی پردہ نہیں تھا . پردہ ہوتا بھی کیوں جس لڑکی سے اپنے سیکرٹری کی شادی کرائی ہوئی تھی، اسی سے تعلق تھا،،، پہلے خود شادی کا خواہاں تھا مگر پھر کسی وجہ سے اپنے سیکرٹری سے اسے بیاہ دیا، جب ملتا سلام نہیں کرتا، ،، سیدھا گلے لگاتا وہ بھی اس بے غیرت خاوند کے سامنے، داڑھی جس نے رکھی تھی اور مدرسہ اس نے بھی پڑھا تھا،،، نام عابد تھا مگر کرتوت شیطانوں کو بھی شرمادیں، ،

مولوی صاحب کے شوق صرف لڑکیوں تک محدود نہ تھے اللہ کی پناہ جب بھی موقع ملتا خوبصورت لڑکوں کو بھی نہیں چھوڑتا تھا، میں بیوی تھی اس کی ایسے قصے مجھ تک پہنچ ہی جایا کرتے تھے، ایک قصہ تو کافی مشہور بھی ہوگیا تھا، لیہ کسی جلسے میں گیا تھا وہاں چار نوجوان کم عمر لڑکے ملنے آئے، مولوی صاحب انہیں اپنی بڑی پجارو گاڑی میں بٹھا کر نکل گیا، ،، شہر میں کسی جگہ اپنی گاڑی چھوڑی،،، رینٹ کی گاڑی لی اور شہر سے باہر ویرانے کی طرف چل پڑا، ،،،دو لڑکوں نے کسی کام کا بہانہ کرکے خود کو چھڑایا، جو دو بچے تھے انہیں لے گیا،،، شام کا وقت تھا،،، رات ہورہی تھی جب خوب اندھیرا ہوا کہنے لگا میں نے کسی کیلئے ایک عمل کرنا ہے، ،، تم ساتھ دو گے، روحوں کو حاضر کرنا ہے میں جو کہتا جاوں تم اسے طرح کرنا، اندھیرے میں ان کے کپڑے اتروائے اور ان سے شیطانی عمل کرکے واپس پلٹا۔

قوم لوط والے عمل کے گواہ ان لوگوں سے بھی بااسانی مل جائیں گے جو جہادی ٹریننگ کے دوران اس کے ساتھ ہوتے تھے اور یہ وہاں بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا تھا۔

تصویروں کی بات کررہی تھی نہ جانے کہاں نکل گئی، وہ میری بھی بہت ساری فوٹوز نکالتا تھا میں منع کرتی تھی مگر یہ نہیں رکتا تھا، بیوی کبھی کس حالت میں ہوتی ہے کبھی کس حالت میں، وہ یہ نہیں دیکھتا تھا جھٹ سے موبائل سے تصویر لے لیتا تھا، بعد میں مجھے پتہ چلا وہ یہ سب کس نیت سے کرتھا تھا، میری بیٹی کی بھی بہت ساری فوٹوز لی تھیں اور پھر مجھے دکھائیں کہ یہ دیکھو تمہاری اور تمہاری بیٹی کی میرے ساتھ ہر طرح کی فوٹوز ہیں اگر تم میرے خلاف کسی کو کچھ بتاو گی تو میں یہ فوٹوز نیٹ پر ڈال کر تمہیں اور تمہاری بیٹی کو بدنام کردوں گا،
اور تمہاری بیٹی کو بدنام کردوں گا،

جب پانی سر سے گذرا میں نے اپنے دیوبند کے تمام بڑے علما کو ایک تفصیلی استفتا لکھا کہ یہ شخص اس طرح اس طرح کرتا ہے. کیا میرا اس سے نکاح ٹو ٹ گیا ہے، اس کو میرے اس خط کا علم ہو ا، پھر یہ سب سے ملا،،، سب کو بتایا کہ یہ میری بیوی کسی کے کہنے پر یہ سب کچھ کررہی ہے، ،،، مماتیوں سے اس نے بڑے پیسے لئے ہیں، ،،، یہ ہے وہ ہے آخر میں تو مجھ پر غلط الزامات لگانے تک سے باز نہیں آیا، میں اپنا دکھ کسے بیان کرتی جن سے بھی بیان کیا سب نے یہی کہا بی بی صبر سے کام لو بات پھیلنے نہ پائے، پھیل گئی تو مسلک کی بدنامی ہوگی،

میرے ابو کے ایک تعلق دار بڑے مولانا صاحب مدینہ منورہ میں رہتے ہیں، انہیں بھی میں نے یہ سب کچھ بتایا، ،، جواب اس نے یہ دیا کہ یہ آپ کی غلط فہمی ہے میں نے ہر طرف سے پتہ کروالیا ہے یہ تو بہت اچھے آدمی ہیں، میرا علم اپنے اوپر حضوری ہے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی اور بھگت رہی تھی اور وہ کہہ رہا تھا یہ افواہیں ہیں،

میں اسے کیسے کہتی کہ آپ اپنے نام کے ساتھ اتنا بڑا شیخ لکھتے ہیں، ،، بڑے پیر بنے ہوئے ہیں مگر آپ دیکھ رہے ہیں،،، سب کچھ جانتے ہوئے بھی ایک غلط بندے کو سپورٹ کررہے ہیں، اس پیر صاحب سے جب مولوی صاحب کا تعلق بنا، ،، مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ جدہ میں یہ اس کیلئے ہزاروں لاکھوں ریال چندہ کرنے لگا، پہلے اسے مرید بنایا اور جب دیکھا کہ بندہ اپنی لائن کا ہے تو سیدھا خلیفہ بنادیا، اور جب میرے خط کی وجہ سے مولوی صاحب مشکوک ٹھہرے اور علما چوکنا ہوگئے تو اس کے سر پر دست شفقت رکھنے کیلئے یہ پیر صاحب ہر سال اس کے مدرسہ آنے لگے تاکہ لوگوں کے دلوں میں مولوی صاحب کی عزت بڑھے، میرے والد نے ہماری یہی تربیت کی تھی کہ ہر جگہ شرعی پردے کا خیال رکھنا ہے مگر یہ پیر صاحب ان چیزوں کے قائل نہیں، مریدنیوں کو پیار دیتے ہیں ان کے سر پر دست شفقت رکھتے ہیں، کیا ایسا کوئی شخص پیری کے لائق ہوسکتا ہے جواپنی مریدنیوں سے پردہ نہ کرے ؟

پہلے تو مولوی صاحب نے میرے والد کے نام کو خوب استعمال کیا، ہر جگہ ایسے لوگ ڈھونڈے جو میرے والد سے عقیدت کا رشتہ رکھتے تھے اور پھر ان سے خوب خوب چندہ کیا، ایک بار ملائیشیا گئے اور خاص ان لوگوں کے پاس گئے جو میرے والد صاحب کے عقیدت مند تھے، ،، انہیں جاکر بتایا کہ میں مفتی صاحب کا داماد ہوں، ،،، انہوں نے اکرام کیا اور چندہ اکھٹا کرکے دیا، ،،، پھر ان سے کہنے لگا میرے لئے کسی جگہ اور مسجد کا انتظام کرو میں نے اپنی ایک بیوی یہاں رکھنی ہے اور میں ہر تین چار ماہ کے بعد چند دنوں کیلئے آیا کروں گا، انہوں نے کچھ وقت مانگا، اتفاق سے انہیں لوگوں میں سے کچھ لوگ جماعت میں ہمارے شہر آئے پھر ہمارے گھر آئے بھائیوں سے ملے اور جب انہیں ساری حقیقت بتائی گئی تو روتے ہوئے وہاں سے نکلے اور قسم کھائی کہ اب یہ بندہ وہاں قدم بھی نہیں رکھ سکے گا،
وہاں قدم بھی نہیں رکھ سکے گا،

بھائی اس کا قتل کرکے دبئی مفرور ہوا،،، یہ اس کے گھر جانے لگا، ،، بیوی سے اس کے بغل گیر ہوتا اور وہ کہتی یہ مولوی تو میرا پتر بھی ہے اور یار بھی۔ توبہ توبہ کسی کو بھی نہیں چھوڑتا تھا۔۔جب یہ بات نکلی اور میں نے علما سے رابطہ کیا،،، ہر جگہ یہ پہچنتا انہیں قسمیں کھا کر یقین دلاتا کہ میں جھوٹ بول رہی ہیں اور قسمیں بھی کلما طلاق کے ساتھ، جس کے دل میں اسلام اور شریعت کی روشنی ہوتی ہے کیا وہ اس طرح کی قسمیں کھا سکتا ہے،

ان قسموں کی رو سے اس کی ایک بھی بیوی اس کے نکاح میں بچی نہیں ہے۔ میں نے اپنے اس خط میں ایک لفظ بھی جھوٹ نہیں لکھا تھا میں کرتی بھی تو کیا کرتی کس کے پاس جاتی، یا تو صبر کرکے یہ سب تماشا دیکھتی، ،،، اپنی بیٹی کو اس درندے کو سونپ دیتی اور چپ چاپ تماشا دیکھتی یا پھر خدا کے عذاب سے ڈرتی،،، علما سے رائے دریافت کرتی حرمت مصاہرت کے حکم پر عمل پیرا ہوتی، میں آخر کیا کرتی،

اب یہ ہر جگہ کہتا پھرتا ہے یہ سب مماتیوں کا کیا دھرا ہے واللہ باللہ تاللہ مجھے کسی نے بھی نہیں کہا کہ تم یہ خط لکھو یہ میرے ضمیر کی آواز تھی اور اللہ کی شریعت نے مجھے یہ حق دیا تھا کہ میں ایک ایسے کالے کرتوت والے انسان کے کرتوت ان علما کے علم میں لاتی تاکہ وہ اس کا سد باب کریں ورنہ یہ کتنی لڑکیوں کی زندگی برباد کرلے گا، کوئی بیوی اتنی طاقتور نہیں ہوتی کہ اپنے گھر میں کیمرے فٹ کرے اور اپنے خاوند کی ویڈیوز بنائے یا مدرسے کی لڑکیوں کے ساتھ یہ جو کچھ کرتا تھا اس کی ویڈیوز بنائے.

میں نے جو کچھ دیکھا ہے وہی بیان کیا ہے آپ کو اگر ثبوت کی تلاش ہے تو آج آپ اعلان کردیں کہ جن جن لوگوں کے ساتھ مولوی صاحب نے زیادتیاں کی ہیں وہ اس نمبر پر رابطہ کریں . انہیں تحفظ دیا جائے گا اور ان کے نام صیغہ راز میں رکھے جائیں گے . اللہ گواہ ہے بہت سارے لوگ حاضر ہوجائیں گے وہ غریب اور بے بس لوگ جن کی بچیوں کی زندگی اس درندے نے تباہ کی،

یہ کہنا کہ یہ جھوٹ ہے اس پر میں اتنا کہوں گی جو لوگ بھی بغیر تحقیق کیئے مجھے جھوٹا کہہ رہے ہیں وہ ذرا مولوی صاحب کو اپنے گھر کی راہ دکھائیں اور پھر تماشا کریں کہ وہ آپ کی گھر کی عورتوں کے ساتھ کیا کرتا ہے، کہنا آسان ہے بھگتنا مشکل ہے، جن پر بیتی ہے، وہ بے شک خاموش ہوں گے مگر ان کے سینوں میں بھی آتش فشاں دہک رہے ہوں گے،جب میرے یہ خطوط منظر عام پر آئے بہت سارے سارے لوگوں نے مجھے سے رابطہ کیا اور بتایا کہ اس درندے نے ان کی بہنوں، بیٹیوں کے ساتھ بھی زیادتیاں کی تھیں، میری باتوں کی تردید کرنے والے خدا کے غضب سے ڈریں میں نے وہی بیان کیا ہے جو میں نے دیکھا ہے جو میں نے محسوس کیا ہے خدا نہ کرے کہ آپ بھی کسی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہوں تب آپ کو پتہ چلے گا کہ اذیت کیا ہوتی ہے بے بسی کیا ہوتی ہے اور کس مپرسی کیا ہوتی ہے۔ کوئی ماں نہیں چاہتی کہ اس کی بچیاں بدنام ہوجائیں، میں بھی نہیں چاہتی تھی، اگر میں یہ باتیں ظاہر نہ کرتیں تو وہ درندہ میری بچی کی عصمت تار تار کردیتا، ایک طرف بدنامی کا ڈر تھا اوردوسری طرف میری بچی کی عصمت دائو پر لگی ہوئی تھی، میں یا تو بدنامی کا خطرہ مول لیتی یا پھر اپنی بچی کی عصمت دائو پر لگاتی۔

جو لوگ مجھے جھوٹا کہہ رہے ہیں وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اگر میری جگہ پر وہ ہوتے تو وہ کیا کرتے ؟مجھے کوئی مسرت نہیں ہورہی اپنے خاوند کے بارے میں ایسا کہتے ہوئے، ایک بیوی کا رشتہ اپنے خاوند سے ایسا نہیں ہوتا، وہ ہر چیز برداشت کرتی ہے بھوک پیاس خوشی اور غمی وہ کبھی نہی چاہتی کہ اپنے خاوند کو بدنام کرے اس پر لوگوں کو جگ ہنسائی کا موقع دے مگر جب وہ ایسے حالات میں گرفتار ہوجائے کہ ایک طرف اس کی بچیوں کی عزت خطرے میں پڑ جائے دوسری طرف اس کا خاوند شریعت کو ایک مذاق بناکر اس کے ساتھ کھیلے تو مجھے بتائیں ایک دیندار عورت کیا کرے گی ؟ کیا وہ خدا کی شریعت کو دیوار پر پھینک کر اپنے ایسے خاوند کی ہر خواہش پوری کرے گی
خواہش پوری کرے گی ؟

یہ خطوط پھیلنے کے بعد اس نے ہر حربہ آزمایا اس نے پنڈی کے ایک بڑے پیر اور شیخ جس کے نام کے ساتھ ہزاروی کا لاحقہ بھی آتا ہے اس کے بیٹے کو میرے پیچھے لگایا کہ تم اسے کسی طریقے سے ورغلائو تاکہ میں کل اسے جھوٹا ثابت کرسکوں کہ دیکھو اس کے تو بہت سارے مردوں کے ساتھ تعلقات تھے نعوذباللہ من ذالک۔

اس پیر صاحب کا بیٹا خود بھی مفتی ہے مگر کند ہم جنس باہم جنس پرواز جو اس کے دوست ہوں گے وہ بھی اسی طرح ہوں گے اس نے لاکھ کوششیں کی اور میرے والد مرحوم مفتی زین العابدین رحمہ اللہ کے نسبت کے حوالے دیئے کہ تم اس مولوی سے جان چھڑائو، یہ تو ویسے بھی بڑا بدمعاش ہے میں آپ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں اور میں یہ سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں، میں اس کو کیا بتاتی کہ مفتی صاحب کیا اب بھی میں تم لوگون کا اعتبار کروں گی،

مجھے یقین ہے جو بھی اس کے مددگار ہیں وہ بھی اور یہ خود بھی اس دنیا میں بھی ذلیل و رسوا ہوگا اور آخرت میں بھی ذلت و ورسوائی اس کا مقدر بنے گی، مجھے گلہ ہے اور شکوہ ہے اور بہت سخت شکوہ ہے میرے اپنے مسلک دیوبند کے بڑے بڑے علما سے جنہوں نے اسے روکنے کی بجائے ہمیشہ مجھے ہی صبر کی تلقین کی، مجھے شکوہ ہے وفاق کے ناظم صاحب سے جس نے اس قسم کے مدارس کو بندکرنے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا، مجھے سو فیصد یقین ہے وفاق والوں کے پاس ضرور اس قسم کی شکایتیں پہنچتی ہوں گی کہ بنات کے مدرسوں میں کیا کچھ ہوتا ہے، پھر انہوں نے ایسے مدارس بند کرانے کیلئے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا؟

خدا کے دین کے ساتھ خدا کے دین کے نام پر کھلواڑ ہوتا رہا اور یہ گونگے شیطان بنے رہے۔ ۔کیوں آخر کیوں۔ کیا خدا کی شریعت سے انہیں اپنے مسلک کی عزت زیادہ عزیز تھی ؟ کیا ان معصوم بچیوں کی عزت اور عصمت کوئی معنی نہیں رکھتی جو اس جیسے درندوں کے ہاتھوں روز پامال ہوتی ہیں، مجھے شکوہ ہے ان سادہ لوح دیندار لوگوں سے جو تحقیق نہیں کرتے اور جو بھی شکل خضر بنا کر پیری کا ڈھونگ رچا کر ان کے سامنے آتا ہے وہ انہیں سروں پر بٹھالیتے ہیں اور پھر ان ساری باتوں کو پر کاہ اہمیت نہیں دیتے جو ان جیسے دونمبر لوگوں کے بار میں بتائیں جاتی ہیں، یہ جس پیر صاحب کا ذکر میں نے کیا، اس کے بارے میں کچھ عرصہ قبل ایک کتابچہ بھی چھپا تھا اور اس میں اس کے سارے کرتوتوں کی تفصیل تھی مگر اس نے کمال عیاری سے وہ کتابچہ ہی غائب کروادیا، ایسے لوگ ایک دوسرے کو تحفظ دیتے ہیں تاکہ لوگوں کا اعتماد ان پر قائم رہے، میں نے یہ ساڑے تین سال کس جہنم میں گذارے، میں روز جیتی رہی اور روز مرتی رہی، جو مجھ پر بیتی خدا کسی مسلمان پر نہ بتائے،

جو کچھ میں نے آپ سے بیان کیا یہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں جو میں نے دیکھا جو میں نے محسوس کیا، میں جانتی ہوں میں اپنے مجرم کو شاید دنیاکی کسی عدالت میں نہیں گھسیٹ سکوں نہ ہی ہماری عدالتی نظام سے مجھے اس بارے میں کوئی ریلیف ملنے کی امید ہے مجھے انتظار ہے اس دن کا جس دن ایک ایسی عدالت لگنے والی ہے جہاں کوئی بے انصافی نہیں ہوگی اور کوئی ظالم بچ نہیں سکے گا جہاں مظلوم سروخرو اور ظالم سارے خدا کی پکڑ میں آکر بلبلا رہے ہوں گے بس مجھے اسی دن کا انتظار ہے۔ ۔۔۔

اتنا کہنے کے بعد ان کی آواز رندھ گئی اور میری آنکھوں سے آنسو نکل، میں نے اپنے آنسو صاف کئے اور بوجھل دل کے ساتھ وہاں سے نکل آیا۔